• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

واٹر کمیشن: ڈی ایچ اے سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ طلب

شائع June 11, 2018

سپریم کورٹ کی ہدایت پر سندھ میں پانی کے مسائل پر تحقیقات کے لیے تشکیل دیئے گئے واٹر کمیشن نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی ( ڈی ایچ اے ) انتظامیہ سے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب اور پانی کی فراہمی سے متعلق منصوبہ 2 جولائی تک طلب کرلیا۔

اس کے ساتھ ساتھ کمیشن نے کے 4 منصوبے میں نجی زمین شامل کرنے پر متعلقہ افسران کو جواب کے لیے آخری مہلت دے دی۔

سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے واٹر کمیشن سے متعلق کمیشن کی سماعت کی، اس دوران ایم ڈی واٹر بورڈ، ڈی ایچ اے کی انتظامیہ، کے ایم سی اور دیگر محکمے کے حکام پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ڈی ایچ اے میں بغیر منصوبہ بندی تعمیراتی کام اور سیوریج کے نظام کے معاملے پر کمیشن کے سربراہ نے کنٹونمنٹ بورڈ کے سربراہ سے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت آپ ڈی ایچ اے میں تعمیرات کی اجازت دے رہے ہیں؟ کنٹونمنٹ بورڈ کا کیا قانون ہے، ہمیں آگاہ کریں۔

مزید پڑھیں: واٹر کمیشن کا 200 مسلمان خاکروبوں کو فارغ کرنے کا حکم

اس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے بتایا کہ بلڈنگ پلان ہمارے پاس موجود ہے جبکہ سیوریج کا نظام بھی ہم بہتر کریں گے، جس پر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ آپ لوگ پانی کی فراہمی کو کیوں بہتر نہیں کرتے؟ اس پرکنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے کہا کہ جو چارجز دیتا ہے، ہم اسے پانی فراہم کرتے ہیں۔

کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ آپ لوگ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے، اس پر کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام نے موقف اختیار کیا کہ ہم محدود کام کررہے ہیں، جس پر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ وہ نظر آرہا ہے کہ آپ وہاں کتنی سہولیات دے رہے ہیں۔

دوران سماعت فوکل پرسن آصف حیدر شاہ نے بتایا کہ کمیشن کی ہدایت کے مطابق ڈی ایچ اے اور تمام کنٹونمنٹس نمائندوں کا اجلاس بلایا گیا، ڈی ایچ اے میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیرات کو 2 حصوں میں تقسیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈی ایچ اے فیز 1، 2، 7 کے لیے الگ اور فیز 8 کے لیے علیحدہ ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کا منصوبہ بنایا گیا ہے، اس پر کمیشن کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کنٹونمنٹ علاقوں میں کس قانون کے تحت تعمیرات کی اجازت دی گئی ہے؟ کیا کنٹونمنٹ علاقوں میں پانی آرہا ہے، جو دھڑا دھڑ تعمیرات کی اجازت دی جارہی ہے؟۔

اس پر سیکریٹری ڈی ایچ اے نے بتایا کہ فیز 8 میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، آر او پلانٹ سے ہم پانی فراہم کریں گے، جس پر واٹر کمیشن کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ آر او پلانٹ آپ لگائیں گے تو پانی زمین کے اور نیچے چلا جائیگا، آر او پلانٹ کا کیا نقصان ہے، آپ لوگوں کو پتہ ہے؟ آپ پانی دے نہیں رہے اور فیز 8 میں تعمیرات کرارہے ہیں۔

جس پر سیکریٹری ڈی ایچ اے نے بتایا کہ فیز 8 مکمل تعمیر ہوگا تو پانی کا نظام بہتر کریں گے جبکہ واٹر بورڈ بھی کچھ پانی فراہم کریگا، اس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ واٹر بورڈ سے آپ بالکل توقع نہیں کریں کہ وہ پانی فراہم کرے گا۔

سیکریٹری ڈی ایچ اے نے بتایا کہ ماحولیات کا مطالعہ ہوچکا ہے، منصوبہ بندی ہوچکی ہے، اس پر واٹر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ آپ لوگوں نے پانی سے متعلق کچھ نہیں کیا، کیا فائدہ آپ کی منصوبہ بندی کا، کراچی کی سورس صرف پانی ہے، اللہ نہ کریں کراچی میں زلزلہ آجائے تو آپ لوگ کیا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی پلان نہیں ہے، ڈی ایچ اے میں 10 سال تک کچھ کام نہیں ہوا، ڈی ایچ اے نے رہائشیوں کے ساتھ صرف ظلم کیا ہے۔

دوران سماعت کمیشن کے سربراہ اور ڈی ایچ اے حکام کے درمیان مکالمہ ہوا، جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ صرف پالیسی کی بات کررہے ہیں یہ قانون نہیں ہے، جن کو آپ نے اپنی پالیسیوں میں شامل کیا ہے وہ لوگ تو اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر پارہے، آرٹیکل 9 آپ کو معلوم ہے؟ پانی فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کتابوں کی حد تک ہے۔

واٹر کمیشن نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی ضروریات پوری کرے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج کیا کرے گا؟ وہ تو شہر کو صاف نہیں کر پارہا، واٹر سیوریج بورڈ والوں کے پاس اتنا پیسہ کہا سے آئے گا؟

واٹر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ کے4 منصوبہ سالوں سے تاخیر کا شکار ہے، واٹر بورڈ کے نظام کو بہتر کر بھی لیا تو بھی ہمیں کئی سالوں کا وقت درکار ہوگا،ہرادارے کو تباہ کردیا گیا ہے بہتری کے لیے سالوں لگ جائیں گے۔

دوران سماعت کمیشن کی جانب سے کنٹونمنٹ افسر سے استفسار کیا گیا کہ آپ مکینوں کو پینے کا پانی بھی نہیں دے رہے، اس پر انہوں نے بتایا کہ جہاں تک لائنوں کے ذریعے پانی کی رسائی نہیں انہیں ٹینکرز کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: واٹر کمیشن نے ڈی ایچ اے، کلفٹن میں تعمیرات پر مکمل پابندی لگادی

اس پر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ سیوریج کو دیکھنے کیلئے اپنا انتظام کریں، ڈی ایچ اے فیز 5 کیلئے الگ اور فیز ون، 2 اور 4 کیلئے الگ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں۔

سماعت کے دوران کمیشن کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ پلانٹس کی تنصیب کے حوالے سے حتمی تاریخ کب دیں گے؟ جس پر ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ حکام نے 3 ہفتے کی مہلت مانگی، جس پر کمیشن نے اجلاس منعقد کرکے حتمی تاریخ بتانے کیلئے 2 جولائی تک مہلت دے دی۔

منصوبہ ٹی پی 5 کے لئے زمین درکار ہونے کا معاملہ

واٹر کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ آئین کے تحت آپ شہریوں کو پانی فراہم کرنے کے بھی پابند ہیں، کے پی ٹی اور سندھ حکومت کے درمیان ٹی پی 5 کی زمین کا تنازع ہے، اس پر عدالت میں موجود چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ہم ٹی پی 5 کیلئے متعلقہ زمین دینے کو تیار ہیں۔

کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ کے پی ٹی کی زمینوں پر تو رہائشی اسکیمیں بنا دی گئی ہیں، ہم نے کوئی حکم جاری کردیا تو ساری سوسائٹیز متاثر ہوں گی۔

اس پر چیئرمین کے پی ٹی ایڈمرل جمیل اختر کا کہنا تھا کہ کے پی ٹی کی ایک سو ایکڑ زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی ہے ، سکندر آباد میں 4 سو ایکڑ زمین پر قبضہ ہے، ساڑھے پانچ لاکھ ملین گیلن سالڈ ویسٹ یومیہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے جس سے ہمارے چینلز متاثر ہوئے ہیں۔

کمیشن نے کوآرڈینیٹر آصف حیدر کو کے پی ٹی اور سندھ حکومت کے درمیان رابطے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے کہا کہ آصف حیدر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر میں رکاوٹیں دور کرنے کیلئے مشاورت کریں گے۔

چیف سیکریٹری نے کمیشن کو بتایا کہ کے پی ٹی اور دیگر ہاؤسنگ اسکیم ایکڑ کے حساب سے بنی ہوئی ہے، اس پر واٹر کمیشن نے کہا کہ کے پی ٹی اور سندھ حکومت کی زمین کیسے الاٹ کی جاسکتی ہے؟

کمیشن کی جانب سے مشاہدہ کیا گیا کہ جب تک زمین نہیں ملے گی، منصوبہ تاخیر کا شکار رہے گا۔

دوران سماعت کے پی ٹی اور سندھ حکومت ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہوگئی اور چیئرمین کے پی ٹی اور چیف سیکریٹری نے یقین دہانی کرائی کہ مفاد عامہ میں اپنا اپنا دعویٰ واپس لیں گے۔

اس پر کمیشن کی جانب سے حکم دیا گیا کہ زمین کی نشاندہی اور ڈیمارکیشن کے بعد 3 جولائی تک مشترکہ جواب جمع کرایا جائے۔

اس کے علاوہ کمیشن نے ٹی پی 5 کے لیے درکار زمین کے معاملے کو حل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

دوران سماعت سی ای او کلفٹن کنٹونمنٹ کی عدم پیشی پر کمیشن کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ آئندہ سماعت پر وہ پیش نہیں ہوئے تو سیکریٹری دفاع کو طلب کریں گے۔

اس دوران چیئرمین کے پی ٹی نے بتایا کہ سندھ حکومت نے الاٹیز کو زمین الاٹ کی ہے، کیس بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، جس پر کمیشن نے ٹریٹمنٹ پلانٹ منصوبے کے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

کمیشن نے حکم دیا کہ آگاہ کیا جائے کتنی زمین درکار ہے کتنی سوسائٹی ہے، سندھ حکومت اور کے پی ٹی مکمل پلان بنائے اور نشاندہی کی جائے کہ کس ایریا میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کرنا ہے۔

کے 4 منصبوے کا معاملہ

علاوہ ازیں سماعت کے دوران کے فور منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کا معاملہ بھی زیر غور آیا، اس پر کمیشن کی جانب سے فوکل پرسن سے استفسار کیا گیا کہ کس کی اجازت سے آپ نے ڈیزائن تبدیل کیا ؟ کس قانون کے تحت زبانی حکم پر عمل کرنے کے پابند تھے ؟

اس پر فوکل پرسن نے بتایا کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر حکومت کا حصہ تھے، اس لیے ان کا حکم مانا، جس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا وزیراعظم بھی حکومت نہیں ہے آپ پروجیکٹ ڈائریکٹر کو حکومت کہہ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی واٹر بورڈ کے ایم ڈی کو ہٹانے کا حکم

اس موقع پر کمیشن نے کے 4 منصوبے کی مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ کتنی زمین مختص ہوئی،زمین کی قیمت کیسے مقرر ہوئی؟ ڈیزائن میں تبدیلی کی بھی تفصیلات پیش کی جائیں۔

کميشن نے کے 4 منصوبے کے لیے سرکاری زمين کے بجائے 2 ہزار ايکڑ نجی اراضی خریدنے اور رقم کے اجراء پر پيش کردہ فوکل پرسن کی رپورٹ کو غير اطمینان بخش قرار دیا۔

واٹر کمیشن نے اس معاملے پر آخری جواب داخل کرانے کے لیے 3 جولائی تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر حتمی تاریخ تک جواب نہیں کرایا تو یہ معاملہ نیب کو بھیجنے پر غور کیا جائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے واٹر کمیشن کی مزید کارروائی 3 جولائی تک ملتوی کردی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 11, 2018 10:28pm
یقیناً سکندر آباد کی زمین قبضہ کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس سے زیادہ ڈی ایچ اے نے ڈیفنس فیز 8 کی زمین قبضہ کی، اسی طرح مائی کلاچی پر کے پی ٹی نے خود مینگروز ختم اور سمندر کی بھرائی کرکے زمین قبضہ کی ہے، ہاکس بے روڈ پر بھی بار ایسوسی ایشن اور دیگر ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر زمین قبضہ کی جارہی ہیں، اب کلفٹن بلاک 1 اور کلفٹن بلاک 2 کے سمندر کی بھرائی کرکے قبضہ کیا جارہا ہے۔ ان سب کا مشترکہ نقصان یہ ہوگا کہ کراچی کی قدرتی بندرگاہ کی حیثیت ختم ہوجائے گی، ان تمام مقامات پر قدرتی طور پر سمندر کا پانی آتا ہے، جس سے بندرگاہ رواں دواں ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ کراچی بندرگاہ کو توسیع نہیں دی جاسکے گی، پاکستان اور کراچی کی آبادی کے لحاظ اور انشاء اللہ ہمارے ملک کی معیشت کی ترقی کی صورت میں کراچی بندرگاہ چھوٹی ہے یہاں سالانہ صرف 6یا 7 لاکھ کنٹینر آتے جاتے ہیں دوسری جانب 56 لاکھ آبادی کے سنگاپور کی بندرگاہ سے 3 کروڑ 37 لاکھ کنٹینرر کی سالانہ ہینڈلنگ ہوتی ہے، کمیشن کو سندھ حکومت، کے پی ٹی، ڈی ایچ اے سے ان قبضوں کے متعلق مکمل رپورٹ مانگنی چاہیے اور ہر قسم کے قبضوں پر پابندی لگانی چاہیے ۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024