ڈاکٹر شمشاد اختر: مالیاتی صنعت کی خاتونِ آہن
سننے میں یقیناً یہ عجیب سا لگے گا لیکن یہ حقیقت ہے اب تک پاکستان میں بننے والی حکومتوں میں کسی بھی خاتون کو وزیرِ خزانہ کا قلمدان پہلی مرتبہ سونپا گیا ہے، اور یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر شمشاد اختر ہیں، اور حیرانی کی بات یہ کہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اس سے پہلے پاکستان کی پہلی خاتون گورنر اسٹیٹ بینک کا اعزاز بھی اپنے نام کیا تھا۔
ڈاکٹر شمشاد اختر کا نام پاکستان کی مالیاتی صنعت میں پہلی مرتبہ سال 2005ء کے آخر میں اس وقت سامنے آیا جب پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عشرت حسین کی بطور گورنر اسٹیٹ بینک دوسری مدت ملازمت ختم ہوئی۔ پرویز مشرف نے انہیں تیسری مدت کے لیے بھی اس عہدے کی پیشکش کی اور قانون میں تبدیلی کا عندیہ بھی دیا مگر ڈاکٹر عشرت حسین نے معذرت کرلی۔ جس کے بعد مشرف حکومت کی نظر پڑی ایشیائی ترقیاتی بینک کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شمشاد اختر پر، حالانکہ اس سے قبل ڈاکٹر شمشاد اختر کو پاکستان میں بہت کم لوگ ہی جانتے تھے۔
جس وقت یہ سب کچھ ہورہا تھا اس وقت آج ٹی وی کے نیوز روم میں صبح کی شفٹ کی آمد جاری تھی۔ اس وقت آج ٹی وی کے بزنس ڈیسک کی عارضی ذمہ داری میرے ناتواں کاندھوں پر تھی۔ بزنس ریکارڈر گروپ کے ایڈیٹر ارشد زبیر نہایت پُرجوش انداز میں نیوز روم میں داخل ہوئے اور اعلان کیا کہ مشرف انتظامیہ نے آئندہ مدت کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک کے لیے ڈاکٹر شمشاد اختر کا نام فائنل کرلیا ہے۔ ارشد زبیری نے ڈیسک پر فوری طور پر شمشاد اختر کا فون نمبر دیا اور کہا کہ ان سے فون پر بات کی جائے۔ اب چونکہ وہ غیر معروف تھیں اس لیے پاکستان میں ان کی کوئی خاص پروفائل موجود نہیں تھی، لہٰذا فوری طور پر انٹرنیٹ پر تلاش کی گئی اور چند سطروں کی معلومات کے ساتھ اینکر نے ڈاکٹر شمشاد اختر کا تعارف کروایا اور پھر بیپر پر مختصر بات ہوئی۔
شمشاد اختر نے کریئر کے آغاز میں پاکستان کی سول سروس جوائن کی مگر جلد ہی انہیں عالمی بینک کے پاکستان آفس میں ملازمت کی آفر ہوئی اور پھر وہ 10 سال تک وہیں خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ جس کے بعد شمشاد اختر نے 1990ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک میں ملازمت اختیار کی اور سال 2004ء میں انہیں ڈائریکٹر برائے جنوب مشرقی ایشیاء تعینات کیا گیا۔
مالیاتی صنعت میں خواتین کا کردار پاکستان میں بہت زیادہ نمایاں نہیں ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر شمشاد اختر کو قیام پاکستان کے 58 سال بعد پہلی خاتون گورنر اسٹیٹ بینک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے بطور گورنر اسٹیٹ بینک نہایت سخت فیصلے کیے اور حکومت کی مالیاتی اور زرِمبادلہ پالیسی کے ساتھ حکومتی قرضوں پر بھی کڑی تنقید کی اور حکومتی اور کاروباری حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود ڈاکٹر شمشاد اختر نے سخت مانیٹری پالیسی اپنائی۔
اُس دور میں اسٹیٹ بینک سال میں 2 مرتبہ پالیسی ریٹ کا تعین کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی جاری کرتا تھا۔ سال 2008ء میں شمشاد اختر نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیشِ نظر مئی اور نومبر میں عبوری مانیٹری پالیسی جاری کردی جس میں حکومت کے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے، تیزی سے گرتے ہوئے زرِمبادلہ ذخائر، بینکوں کی جانب سے حکومت کو قرض دینے سے گریز اور عالمی سطح پر کموڈیٹیز کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنایا گیا اور بنیادی شرح سود کو 15 فیصد کردیا گیا۔
مالیاتی صنعت میں خواتین کا کردار پاکستان میں بہت زیادہ نمایاں نہیں ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر شمشاد اختر کو قیام پاکستان کے 58 سال بعد پہلی خاتون گورنر اسٹیٹ بینک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
سال 2008ء میں این ایف سی ایوارڈ کے بعد حکومت کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ وفاق اپنا جمع شدہ ٹیکس کا 60 فیصد صوبوں کو ادا کردیتا تھا اور اس کے پاس قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کے بعد کوئی رقم نہیں بچتی تھی اس لیے وفاقی حکومت نے بڑے پیمانے پر اسٹیٹ بینک سے قرض لیا۔
اس فیصلے پر کاروباری برادری نے خوب شور مچایا اور ہر طرف سے ہونے والی کڑی تنقید کی وجہ سے حکومت کے ساتھ اسٹیٹ بینک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور شمشاد اختر کی بطور گورنر پہلی مدت ملازمت پوری ہونے تک یہ کشیدگی جاری رہی۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے معیشت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے کئی کئی گھنٹوں تک طویل میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا اور کُھل کر حکومت کی مالیاتی پالیسی پر تنقید کی۔ ایسی ہی ایک بریفنگ میں ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ کس اختیار کے تحت آپ حکومت پر تنقید کررہی ہیں؟ کیا بطورِ گورنر آپ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف سازش کررہی ہیں؟ اس سوال نے ڈاکٹر شمشاد اختر کو بہت زچ کیا لیکن انہوں نے اپنے سخت گیر فیصلوں کی وجہ سے خاتون آہن (Iron Lady) ہونے کا ثبوت دیا۔
بطورِ گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر نے اسٹیٹ بینک اور مالیاتی صنعت میں اصلاحات کا عمل جاری رکھا اور برطانوی ادارے برائے بیرونی ترقی کے تعاون سے فنانشل انکلوژن کا پروگرام شروع کیا، جس کے تحت عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو بینکاری نظام میں لانے کے لیے برانچ لیس بینکاری، موبائل بینکاری اور الیکٹرانک بینکاری کے نظام کو فروغ دینے میں مدد ملی ہے اور یہ پروگرام آج بھی جاری ہیں۔
اسی طرح سندھ کی صوبائی حکومت کو سندھ بینک کا لائسنس جاری نہ کرنے پر بھی اسٹیٹ بینک کے تعلقات میں خلیج گہری ہوتی گئی اور جیسے ہی شمشاد اختر کی پہلی مدت ملازمت کا دورانیہ ختم ہوا پیپلزپارٹی کی حکومت نے انہیں دوسرے دور کے لیے گورنر تعینات کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ جس کے بعد شمشاد اختر کی جانب سے بھرپور لابنگ کی گئی۔ ایک موقع پر تو شمشاد اختر آصف علی زرداری کو ماضی میں اپنے خاندانوں کے دیرینہ تعلقات سے بھی آگاہ کرتی ہوئی پائیں گئیں مگر حکومت نے انہیں مزید براداشت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا عہدہ آئینی تحفظ رکھتا ہے اور قانونی طور پر حکومت کا کوئی بھی اہلکار، وزیر یا وزیرِاعظم بھی گورنر اسٹیٹ بینک کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی مدت ملازمت کے خاتمے سے قبل انہیں عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ مگر گورنر اسٹیٹ بینک کو ملک چھوڑنے سے قبل حکومت کی اجازت لینا ضروری ہوتی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی بیرون ملک روانگی کی صورت میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کو قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا جاتا ہے تاکہ خزانے اور مالیاتی امور میں کوئی بھی فیصلہ ساز شخصیت اس اہم نشست پر موجود رہے۔ حکومت سے کشیدہ تعلقات اور دوسری مدت کے لیے بطور گورنر تعینات نہ ہونے پر شمشاد اختر نے عالمی ایجنسیوں میں ملازمت اختیار کرنے کی ٹھان لی اور ایک ایسی ہی ایجنسی میں ملازمت کے حصول کے لیے حکومتی اجازت کے بغیر بیرون ملک چلی گئیں جس کا علم حکومت کو ان کی واپسی پر ہوا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ڈاکٹر شمشاد اختر نے متعدد مرتبہ اسحٰق ڈار اور مسلم لیگ ن کے دیگر افراد کے ساتھ لابنگ کرنے کی کوشش کی کہ انہیں دوسری مدت کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کردیا جائے یا پھر انہیں معاشی ٹیم میں کوئی اہم پوسٹ دی جائے مگر (ن) لیگ کی حکومت بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوئی۔
دوسری دفعہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کے لیے نام زیرِ غور نہ آنے پر شمشاد اختر کی جانب سے بھرپور لابنگ کی گئی۔ ایک موقع پر تو شمشاد اختر آصف علی زرداری کو ماضی میں اپنے خاندانوں کے دیرینہ تعلقات سے بھی آگاہ کرتی ہوئی پائیں گئیں مگر حکومت نے انہیں مزید براداشت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی گورنر اسٹیٹ بینک کی اسامی کے لیے ایک ایسا فرد درکار تھا جو ان کی پالیسی کے مطابق بینک دولت پاکستان کو چلائے، یہی وجہ ہے کہ 2 مرتبہ پالیسی ریٹ کا اعلان اسٹیٹ بینک کے بجائے حکومتِ پاکستان نے خود کردیا، لیکن میڈیا کی جانب سے ہونے والی تنقید کے سبب اس عمل کو روک دیا گیا۔ مگر اسحٰق ڈار کے منتخب کردہ گورنر اسٹیٹ بینک محمود اشرف وتھرا اس قدر نااہل ثابت ہوئے کہ کم ترین بنیادی شرح سود متعارف کروانے کے باوجود وہ اپنی پالیسی کے بارے میں کاروباری برادری کو اطمینان نہ دلا سکے۔
اس وقت پاکستان کو جن معاشی حالات کا سامنا ہے ایسے میں ڈاکٹر شمشاد اختر جیسی شخصیت نہایت موضوع قرار دی جاسکتی ہیں۔ یہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شمشاد اختر کے بیرون ملک مالیاتی صنعت میں اچھے تعلقات ہیں جبکہ قرض دینے والے عالمگیر اداروں جیسے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ میں مؤثر جان پہچان رکھتی ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ وہ عالمی مالیات میں کام کرنے والی بیوروکریسی کے مزاج اور سوچ سے بھی بخوبی آگاہ ہیں، جبکہ اداروں میں بھی ڈاکٹر شمشاد اختر کا نام پروفیشنل ازم کا نام ہے۔
جیسا کہ اوپر یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے دور میں جاری ہونے والی معاشی جائزہ رپورٹس اور مانیٹری پالیسی بیانات میں شمشاد اختر حکومت کی ٹیکس وصولی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور اب جبکہ پاکستان کو سال 2008ء جیسے معاشی حالات کا ہی سامنا ہے اور ادائیگیوں کے توازن کے علاوہ حکومتی مالیاتی میں بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے تو ایسے میں نگران وزیرِ خزانہ ہی سہی شمشاد اختر کی شخصیت بہت اہم اور کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ خصوصاً شمشاد اختر ٹیکس نظام کے حوالے سے اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اپنے اس تجربے کی بنیاد پر وہ پاکستان کے ٹیکس نظام پر ایک مقالہ بھی لکھ چکی ہیں۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے عہدے کا حلف لینے کے فوری بعد ہی وفاقی ادارہ محصولات کے اہم افسران کے ساتھ اجلاس کیا جس میں ٹیکسوں کی وصولی کی صورتحال کے علاوہ سابقہ حکومت کی اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم پر بات چیت کی گئی ہے اور انہوں نے افسران کو ماضی کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے حکومت کو ہونے والے فائدے پر تجزیاتی رپورٹ تیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
اس وقت پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے علاوہ عالمی سطح پر دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے جس میں ایف اے ٹی ایف (FATF) کی گرے لسٹ میں پاکستان کے نام کی شمولیت اور پاکستانی بینکوں کے خلاف دیگر ملکوں میں نگرانی کے مسائل ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ ان مسائل کے حوالے سے شمشاد اختر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے حالات کو بہتری کی طرف لاسکتی ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں