سندھ طاس معاہدے کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنانے کا مطالبہ
اسلام آباد: واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( واپڈا ) کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا ہے کہ اگر پاکستان مستقبل کے تباہ کن خطرات سے بچنا چاہتا ہے تو اسے اپنے کھیتی کے طریقہ کار، پانی کے استعمال کی عادت اور منصوبہ بندی میں تبدیلی کرنا ہوگی اور پانی کی متعدد اسٹوریج بنانے کے ساتھ ساتھ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو جارحانہ خارجہ پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ باڈی کے سامنے بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے اس بنیادی نکتہ کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو مستقبل میں پانی کے تباہ کن خطرات سے بچنے کے لیے یہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
واپڈا کے چیئرمین نے 2006 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے دور میں دیامیر بھاشا کی تعمیر کے لیے بحالی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وجہ سے آج ہمیں ان مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پانی کی کمی کی شکایات پر اے سی سی نے کمیٹی تشکیل دے دی
انہوں نے کالا باغ ڈیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی کہ اس کے آپریشن اور انتظام سندھ کو دینا چاہیے کیونکہ اس صوبے کو ہی تحفظات ہیں کہ وہ اس سے خشک ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو اب دہائیوں پرانے منصوبہ بندی کے عمل، منظوری کے عمل میں وقت گزارنا اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جدید مالیاتی حل کے ذریعے منصوبوں کی تکمیل سے آگے بڑھنا چاہیے۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے بتایا کہ انہوں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ پانی کی قلت کا خطرناک حد تک سامنا کرنے والے 15 ممالک میں شامل ہونے کے باوجود ملک کی 60 فیصد آبادی زراعت اور کاشت کاری سے براہ راست منسلک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا میں انتہائی زرعی شعبوں میں سے ایک میں ہوتا ہے بین الاقوامی سطح پر پانی کے استعمال میں چوتھے درجے پر ہے جبکہ ملک کا 90فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے بھی اٹھایا جائے گا کہ زراعت کے لییے پانی کے استعمال کو کم کرنے کا حل نکالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے 5 ہزار 102 ڈیمز کے مقابلے میں پاکستان میں کل 155 ڈیمز ہے جبکہ بھارت کی 170 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے مقابلے میں پاکستان صرف 30 دن تک پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔
چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی کےدرمیان فرق کو ختم کرنے اور بڑی تعداد میں پانی کے ذخائر کے لیے گنجائش کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ گنے اور دیگر پانی پینی والی فصلوں کی کاشت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2050 تک پاکستان کی آبادی 50 فیصد بڑھنے کے ساتھ 31 کروڑ 20 لاکھ تک ہونے کا امکان ہے، جس سے پانی کے مانگ میں بھی اضافہ ہوگا، لہٰذا جب تک ملک میں منصوبہ بندی اور انتظامیہ طریقہ میں فوری تبدیلی نہیں آتی ملک تباہ حالی کا شکار ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں؟
چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے بچنے کے لیے ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی رہنماؤں کو ضرور اپنا کردا ادا کرنا چاہیے، اس کے علاوہ پانی کے موثر استعمال کے ذریعے 12 ملین ایکڑ فٹ ( ایم اے ایف ) پانی آسانی سے ذخیرہ کیا جاسکتا جبکہ طلب کو بہتر طریقے سے حل کرکے صوبے بھی مزید 11 ایم اے ایف پانی محفوظ کرسکتے ہیں۔
اسی طرح نہروں کے استر کے ذریعے مزید 12 ایم اے ایف اور ڈیموں کی تعمیر سے 35 ایم اے ایف تک پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ واپڈا 2023 تک چھوٹے ڈیمز کے ذریعے ایک ایم اے ایف کے ذخیرہ پر کام کر رہی جبکہ 2030 تک دیامیر بھاشا، مہمند، کرم ٹانگی اور چھینوٹ ڈیمز کی تکمیل سے 9 ایم اے ایم محفوظ کیا جاسکے گا، اس کے علاوہ کالاباغ، شکیو، ددھیال،اکھوری، اسکردواور روہتاس ڈیمز کی تعمیر کے لیے کامجاری ہے اور اس سے 2050 تک اضافی 25 ایم اے ایف ذخیرہ ہوسکے گا۔