احتساب عدالت کا ریفرنسز کی مدت میں مزید توسیع کا فیصلہ
اسلام آباد: احتساب عدالت نے شریف خاندان اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف زیر سماعت نیب ریفرنسز کی سماعت کی مدت میں ایک مرتبہ پھر توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
خیال رہے کہ شریف خاندان اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف زیر سماعت ریفرنسز کی مدت 9 جون کو ختم ہورہی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ وہ ایک خط لکھیں گے، جس میں سپریم کورٹ سے ریفرنس کی سماعت کی مدت میں مزید توسیع کی درخواست کریں گے۔
خیال رہے گزشتہ برس 27 جولائی کو پاناما پیپرز کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف 3 ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور ان ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی مدت میں 9 جون تک توسیع
سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں نیب کی جانب سے ستمبر 2017 میں ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی مہلت مارچ 2018 میں ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد نیب کی جانب سے مہلت طلب کرنے پر 2 ماہ کی توسیع دی گئی تھی۔
بعد ازاں گزشتہ ماہ نیب کی جانب سے دوبارہ درخواست پر عدالت نے ان ریفرنسز کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی تھی اور نیب ریفرنس مکمل کرنے کے لیے 9 جون تک کا وقت دے دیا تھا۔
ادھر عدالت کی جانب سے دی گئی 9 جون کی ڈیڈلائن قریب ہے جبکہ اب تک ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔
اس کے علاوہ احتساب عدالت میں ریفرنسز کے دوسرے راؤنڈ میں داخل ہونے کی وجہ سے العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز میں نواز شریف کا بیان ریکارڈ ہونا باقی ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت العزیزیہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما پیپرز کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی )کے سربراہ واجد ضیاء کے بیان ریکارڈ کرانے اور اس پر جرح کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
واجد ضیاء کے بعد استغاثہ (نیب) کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں حتمی گواہ پیش کیے جائیں گے۔
واجد ضیاء کا بیان
احتساب عدالت میں سماعت کے دوران واجد ضیاء نے جرح کے دوران بتایا کہ گلف اسٹیل ملز کے 1978 کے فروخت معاہدے میں 2 لوگ محمد حسین اور طارق شفیع شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف عوامی عہدہ رکھتے ہوئے مالک تھے، تفتیشی افسر
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے دوران جے آئی ٹی کی جانب سے حسین نواز کے قانونی وارث شہزاد کے بارے میں پتہ نہیں لگایا گیا اور اس معاملے میں طارق شفیع سے بھی سوالات نہیں کیے۔
سماعت کے دوران واجد ضیاء کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ جے آئی ٹی نے 1980 میں گلف اسٹیل ملز کے بقیہ شیئر کی فروخت کے معاہدے کے حوالے سے تحقیقات میں محمد عبداللہ قائد اہلی کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 1980 کے فروخت معاہدے کے گواہ عبدالوہاب ابراہیم گلاداری اور محمد اکرم کے بیان ریکارڈ کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔