صدر مملکت کے دستخط سے قبائلی علاقے، خیبرپختونخوا کا حصہ بن گئے
اسلام آباد: صدر مملکت ممنون حسین نے قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق 25 ویں آئینی ترمیمی بل پر دستخط کردیئے، جس کے بعد قبائلی علاقے صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بن گئے۔
اس حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں خیبرپختونخوا کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا، ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن سرتاج عزیز اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ شریک ہوئے۔
خیال رہے کہ منگل کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل دستخط کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا تھا۔
آئینی ترمیمی بل پر دستخط کے موقع پر صدر مملکت نے قبائلی علاقوں کے عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اب ان لوگوں کو بھی وہی حقوق ملیں گے جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔
مزید پڑھیں: فاٹاکا خیبرپختونخوا میں انضمام: سینیٹ سے 31ویں آئینی ترمیم منظور
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے ان علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا اور یہ اقدام خطے میں استحکام کا باعث بنے گا۔
یاد رہے کہ 28 مئی کو خیبرپختونخوا اسمبلی سے اس بل کی منظوری کے بعد وزارت قانون اور انصاف نے اسے چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیا تھا، جہاں صادق سنجرانی نے تصدیق کی کہ بل کی منظوری کے لیے اسے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت صدر مملکت کو ارسال کیا تھا۔
اس سے قبل مئی ایوان بالا (سینیٹ) اور قومی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے متعلق بل دوتہائی اکثریت سے منظور ہوگیا تھا۔
ایوان بالا میں بل پیش کیے جانے پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی جبکہ جے یو آئی (ف) نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔
ان دونوں جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی میں بھی اس بل کی مخالفت کی گئی تھی اور پی کے میپ نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی تھیں۔
قبائلی علاقوں کے انضمام سے کیا تبدیلیاں ہوں گی؟
واضح رہے کہ قبائلی علاقوں کے انضمام سے سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھ جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔
اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔
ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے سابقہ قبائلی علاقوں کو قابلِ تقسیم محصولات سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔
سینٹ میں سابقہ قبائلی علاقوں کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا کا انضمام اور اس کی پیچیدگیاں
بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔
اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔
2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر سابقہ قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے اور قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔