آئیں کچھ وقت نکال کر زمین کے اختتام کے بارے میں سوچیں
کراچی میں دنیا کے اختتام کا تصور کرنا بہت آسان ہے۔ بے رحم سورج پوری آب و تاب کے ساتھ لاکھوں لوگوں پر آگ برساتا ہے، اس کی حرارت جسم، پودوں، زمین اور سانسوں تک سے پانی خشک کر دیتی ہے۔ زندگی دینے والی یہ قوت گرمیوں کے ان مہینوں میں زندگی لینے والی قوت بن جاتی ہے۔ اب تک اسی سورج کے ہاتھوں 65 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں کئی ہلاکتوں کا بھی امکان ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے مردہ خانوں میں ہلاک شدگان کی بالآخر ٹھنڈی ہوچکی کفن میں لپٹی میتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جو لوگ زندہ ہیں، گرمی انہیں پاگل کر سکتی ہے، خطروں میں دھکیل سکتی ہے، اور لاپرواہ کر سکتی ہے۔ کچھ لوگ اپنی گاڑیوں کو ہتھیار بنا سکتے ہیں تو کچھ اپنے لفظوں کو۔ اس پاگل پن کی وجہ سے کچھ لوگ سمندر جا پہنچتے ہیں اور خود کو لہروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہی لوگ تیرنا جانتے ہیں۔ اس دوران گرمی جاری رہتی ہے۔
خواتین گرم باورچی خانوں میں چولہوں کے سامنے مصروف رہتی ہیں جبکہ بچے سیوریج کے پانی میں کھیل کر خود کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر کوئی بس ایک دھاگے سے منسلک۔ انسانی زندگی کافی نازک ہے۔ کچھ سینٹی گریڈ گرمی میں اضافہ ہوجائے تو ہر چیز جل کر کوئلہ ہوجائے اور کچھ باقی نہ بچے۔
مگر روزانہ انتہائی دولتمندوں یا غیر منصفانہ طور پر امیر لوگوں کو چھوڑ کے کتنے ہی لوگ ان سچائیوں کو محسوس کرتے اور ان کا سامنا کرتے ہیں، مگر دنیا ختم نہیں ہوتی۔ مگر ایسا واقعتاً نہیں ہے۔ سائنسدان اور ماہرِ آثارِ قدیمہ کریگ چائلڈز، جو کہ کتاب Apocalyptic Planet: Field Guide to the Future of the Earth کے مصنف بھی ہیں، کے مطابق دنیا ایک بار، یا ایک بار میں ہی ختم نہیں ہوگی، بلکہ اختتام ایک مرحلہ ہوگا۔ کئی اختتاموں کا ایک مجموعہ جس کا نتیجہ نوعِ انسانی کے اختتام پر منتج ہوگا، بھلے ہی کچھ وقت کے لیے۔
پڑھیے: دنیا کا خاتمہ
یہ ایسے ہوسکتا ہے: زمین فی الوقت آخری برفانی دور کے اختتام پر ہے اور تیز رفتاری سے گرم ہونے کا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔ یہ فضاء کی ان تہوں کو بھی چھوڑنا جاری رکھ سکتی ہے جن کی وجہ سے زمین پر زندگی قائم ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھلیں گے اور ان کے اندرونی مرکزی حصے ایسی تباہ کن جھیلیں پیدا کریں گے جو برف کے اندر اندر سے بہتی ہوئی اچانک باہر نکلیں گی اور گھاٹیوں اور وادیوں میں بنے ہوئے پہاڑی قصبوں کو آن کی آن میں ختم کر دیں گی۔ سمندروں کی سطح میں بھی اضافہ ہوگا اور گرمی پیدا کرنے والے طوفان سمندر سے حاصل کی ہوئی زمین کے بڑے رقبوں پر قائم ساحلی شہروں کا وجود مٹا دیں گے۔
کراچی جیسے شہر ڈوب جائیں گے اور تب تک انسانی تہذیب کو دوبارہ نظر نہیں آئیں گے جب تک سمندر واپس پیچھے نہیں ہٹ جاتا اور ہماری پلاسٹک کی بوتلیں، اور چپس کے پیکٹس آثارِ قدیمہ نہیں بن جاتے۔ یاد رکھیں کہ ضروری نہیں یہ ایک ہی ہولناک طوفان ہو۔ زمین کا موجودہ جغرافیائی دور ہولوسین تقریباً 12 ہزار سال سے جاری ہے۔ یہ ایک ہی جھٹکے میں ختم نہیں ہوگا۔
دنیا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں آپ زندگی کے بغیر دنیا کے اجاڑ پن اور ویرانی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ صرف انسانی زندگی نہیں، بلکہ ہر طرح کی زندگی۔ جنوبی امریکا کے صحرائے ایٹاکاما میں تقریباً کبھی بھی بارش نہیں ہوتی اور کچھ جگہوں پر آپ کو زمین اتنی ہی خشک اور بے جان ملے گی جیسی کہ وہ 20 کروڑ سال قبل تھی۔
اس وقت زمین صرف ایک برف سے ڈھکی گیند کی طرح تھی اور سورج اسے گرم کرنے میں ناکام تھا۔ صحرائے ایٹاکاما کی سطح نمکیات اور تلچھٹ کی بنی ہوئی ہے۔ دن کے دوران سورج کی تمازت سے بچنے کے لیے یہاں درخت تو دور، ایک جھاڑی تک نہیں نظر آتی۔ رات کے وقت درجہ حرارت نقطہءِ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے اور پاؤں تلے نمکیات کیچڑ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ صبح کے وقت نمکیات دوبارہ پھیل جاتی ہیں اور آپ اسے سطح کے نیچے اور دراڑوں میں چلتے ہوئے سن سکتے ہیں۔ یہ ایسی سطح ہے جسے اکثر مریخ کی سطح سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اب تک کوئی بھی مریخ پر زندگی کے آثار تلاش نہیں کر سکا۔
زمین کی تاریخ کے متعلق یہ خیالات گرمی سے پیدا ہونے والی بے چینی اور بے آرامی کو تو ختم نہیں کر سکتے، مگر یہ ہمیں یہ ضرور سکھا سکتے ہیں کہ ہم ایسی چیز کا تجربہ کر رہے ہیں جو ہماری ذات سے کہیں آگے کا معاملہ ہے۔ ہم اب بھی اس سیارے پر رہ رہے ہیں جس میں 'نارمل' کا مطلب انسانی زندگی کبھی بھی نہیں رہا۔ زندگی کی دوسری انواع ہمارے اس زمین پر آنے سے پہلے بھی قائم تھیں، اور ممکنہ طور پر ہمارے جانے کے بعد بھی قائم رہیں گی۔
پڑھیے: کراچی کا مضافاتی قلعہ رتوکوٹ، جو ڈوبنے کے قریب ہے
ہولوسین نامی اس طویل جغرافیائی دور کا اختتام ہمارے سر پر ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ گلیشیئرز کے پگھل جانے کے بعد کیا ہوگا۔ گلیشیئرز ہمارے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں اور تیزی سے نکل رہے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود ہمالیہ کے پہاڑ دنیا کے 2 لاکھ گلیشیئرز کا ایک چوتھائی حصہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی پگھل رہے ہیں اور اگر پگھلنے کی شرح یہی رہی تو پاکستان خصوصی خطرے کے نشانے پر ہے۔
انسان کبھی بھی کچھ نسلوں سے آگے کی تاریخ اور وقت کا تصور کرنے میں اچھے نہیں رہے ہیں۔ ہزاروں سالوں کا تصور کرنا ہمارے بڑے دماغوں کے ساتھ بھی مشکل ہے کیوں کہ بالآخر ہم سب چھوٹی چھوٹی چیزوں میں الجھے ہوئے خود غرض لوگ ہیں: باس نے آج کیا کہا، کل بجلی ہوگی یا نہیں، یہ ہمارے روز مرّہ کے مسائل ہیں۔ ان میں سے کسی بات پر گفتگو کرکے ہم گرمی بھلا سکتے ہیں مگر تاریخ کی وسعت کا تصور کر کے، زمین پر انسانوں کے انحصار کے بارے میں سوچ کر، ہمارے پیروں کے نیچے موجود لاوا کے بارے میں یا ہمارے سر پر موجود فضاء کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں سوچ کر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
اس لیے یہ باتیں اہم ہیں کہ ہم اپنی مصروف زندگیوں میں سے کچھ وقت نکالیں اور انسانی وجود، انفرادی وجود کے چھوٹے پن کا اس سیارے سے موازنہ کریں جو ہمیشہ ہم اور ہمارے مسائل سے آباد نہیں تھا۔ یہ سوچ کر ہمیں ایک مختلف طرح کا سکون حاصل ہو سکتا ہے۔
ہم انسان معمولی باتوں پر پریشان ہونے اور ہر وقت خوف اور پریشانیوں میں گھرے رہنے کے عادی ہیں، اس لیے زاویہ نگاہ کی تبدیلی ضروری ہے، اور زاویہ نگاہ کی تبدیلی اس سوچ سے آئے گی کہ یہ سیارہ ہماری زندگیوں کے لیے ایک اسٹیج نہیں ہے، بلکہ ہم سب اس سیارے کی ناقابلِ تصور حد تک طویل کہانی میں ایک نہایت مختصر سا حصہ ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 مئی 2018ء کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں