دنیا کے نصف بچے غربت، صنفی امتیاز، جنگی اثرات میں زندگی گزارنے پر مجبور
لندن: برطانیہ کے ایک غیر سرکاری ادارے ‘سیو دی چلڈرن’ نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا بھر میں نصف سے زائد بچے غربت، صنفی امتیاز اور جنگ کے اثرات کا شکار ہیں اور وہ اسی ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق ‘بچوں کا عالمی دن’ کے حوالے سے شائع کردہ رپورٹ بعنوان ‘دی مینی فیس آف اکسکلوژن’ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ‘تقریباً 15 کروڑ 30 لاکھ بچے غربت، صنفی تفریق اور جنگی اثرات سے دوچار ہیں جبکہ ایک ارب 20 کروڑ بچوں کو لازمی طور پر کسی ایک مسئلے کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کامیاب بچوں کے والدین کی 12 مشترک عادتیں
سیو دی چلڈرن کی چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ہیلے تھرونی نے کہا کہ ‘ہنگامی اقدامات کے بغیر، ہم کبھی ان وعدوں کی پاسداری نہیں کر سکیں گے جو 2015 میں اقوامِ متحدہ میں ہر ملک نے کیا تھا کہ 2030 تک دنیا کے ہر بچے کو امراض سے محفوظ، تعلیم اور سازگار ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
پریس ٹی ویو کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوب اور وسطی افریقہ کے 10 میں سے 8 ممالک میں بچوں کی حالت زار بدترین ہے اور ان میں سب سے زیارہ خطرہ نائیجیریا میں موجود ہے۔
اس کے برعکس سنگاپور اور سلوینیا میں بچوں کے ساتھ صنفی امتیاز، غربت اور جنگ و جدل کے سب سے کم کیسز منظر عام پر آئے۔
مزید پڑھیں: ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں ٹیک اوور کے چکر میں ہوں؟‘
رپورٹ کے مطابق غربت زدہ ممالک میں تقریباً ایک ارب، 24 کروڑ بچے سورش زدہ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ صںفی امتیاز کا معاملہ عام ہے۔
سروے کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس تازہ سروے میں شامل 175 ممالک میں سے 58 ممالک میں بچوں کی تعلیم، آزادی، تحفظ، اور صحت کے امور گزشتہ 12 ماہ میں تنزلی کا شکار رہے۔
سیو دی چلڈرن کا کہنا تھا کہ جنوبی سوڈان، صومالیہ، یمن اور افغانستان سمیت دیگر 20 مملک بچوں کے رہنے کے لیے بدترین مقامات ہیں۔
ادارے کے مطابق ہر 6 میں سے ایک یعنی 35 کروڑ 70 لاکھ بچے سورش زدہ علاقے میں رہتے ہیں اور انہیں موت اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔
یہ پڑھیں: 'بچوں سے زیادتی کے واقعات پر حکومت سنجیدہ نہیں'
خراب کارکردگی کے حوالے سے سب سے زیادہ افریقی ممالک (32واں)، جنوبی یورپ اور وسطیٰ ایشیا کے ممالک (34ویں) نمبر پر آئے۔
رپورٹ کے مطابق 51 فیصد افریقی ممالک میں بچوں کے حالاتِ کار میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے جبکہ اسی طرح مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں 47 فیصد بہتری کے اثرات نمایاں رہے۔
رپورٹ میں تمام حکومتوں کو 10 بڑے مسائل بشمول بچوں سے جبری مشقت، ان کی جبری شادی اور نقل مکانی کے خلاف فوری اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ سال تسلیم کیا تھا کہ 16 کروڑ 80 لاکھ بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے سیو دی چلڈرن نے بتایا کہ 2030 تک 15 کروڑ لڑکیاں 18 سال کی عمر تک پہچنے سے قبل ہی شادی کے بندھن سے بند جائیں گی جبکہ لاطینی امریکا، کیریبین اور سب سہارن افریقہ میں چائلڈ میرج کی روک تھام میں مثبت اشاریے دیکھنے میں آئے ہیں۔