ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن (ر) صفدر کا اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سے انکار
اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرا دیئے۔
وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران کیپٹن (ر) محمد صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان جاری رکھا۔
خیال رہے کہ کیپٹن (ر) صفدر کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت احتساب عدالت کے سوالات کے جوابات دیئے۔
سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ استغاثہ ان کے خلاف کیس کو مستحکم کرنے میں ناکام رہا ہے لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کیس میں اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کریں گے۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: ’بطور گواہ نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے‘
کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کے لیے انہیں کیس میں گھسیٹا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے 20 اپریل 2017 کے فیصلے میں ان کا نام شامل نہیں تھا لیکن جے آئی ٹی نے ان کا نام شامل کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے جے آئی ٹی کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
سماعت کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ان ذرائع کے بارے میں بتائیں جس کے ذریعے مریم نواز نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے تو اس پر جواب دیتے ہوئے کیپٹن (ر) محمد صفدر کا کہنا تھا کہ مریم نواز اس جائیداد کی مالک نہیں تھیں۔
عدالت میں اپنے فوجی کیریئر کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور نواز شریف کے سیکیورٹی افسر مقرر ہوئے، 1990 کی دہائی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بتایا کہ ان کے سسر کو مختلف مواقع پر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور 1993 میں اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان اور 1999 میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
احتساب عدالت میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ نواز شریف نے اس خطے کو فوری جنگ سے محفوظ کیا لیکن وہ اپنی حکومت نہیں بچا سکے‘۔
کارگل آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دوران نواز شریف اور پرویز مشرف کے دوران تنازعات شدت اختیار کرگئے تھے، جس کے باعث ایک غیر معروف فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔
سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر نے ان سے پوچھے گئے مختلف سوالات کو ’ غیر متعلقہ ‘ قرار دیا اور بے گناہ ہونے کا دعویٰ کیا۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات مکمل ہونے پر عدالت نے حتمی اعتراض کے لیے سماعت 5 جون تک ملتوی کردی۔
تاہم عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو کل 31 مئی کو طلب کرلیا جہاں نواز شریف کے وکیل ان پر جرح کریں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں کیپٹن (ر) صفدر نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات میں سے 80 کا جواب ریکارڈ کرایا تھا اور کہا تھا کہ جب ان کی اہلیہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنی کی ٹرسٹی تھیں تو انہوں نے بطور گواہ آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: مریم نواز کا ایک مرتبہ پھر لندن اثاثوں کی ملکیت سے انکار
انہوں نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے مریم نواز کے سامنے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیوں کو سیل نہیں کیا تھا، لہٰذا انہیں معلوم نہیں کہ ٹرسٹ ڈیڈ فرانزک ٹیسٹ کیلئے کیسے اور کس حال میں ریڈلے کی لیبارٹری تک پہنچی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سماعت میں عدالت کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مریم نواز نے تسلیم کیا تھا کہ وہ آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی رہی ہیں لیکن وہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں اور ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بینیفشل مالک نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ نہ ہی ان کمپنیوں یا ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بینیفشل مالک رہی اور نہ انہوں نے ان سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرائے تھے۔