انتخابی نشانات اور اصطلاحات کا گھن چکر
ہر ملک کے اپنے انتخابی اخلاقیات، نشانات اور اصطلاحات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، برطانیہ میں انتخابات میں 'کھڑا' ہوا جاتا ہے جبکہ امریکا میں انتخابی 'دوڑ میں بھاگا' جاتا ہے۔ اب جبکہ 25 جولائی کو پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات کی تاریخ قرار دیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنی انتخابی بولیوں پر پڑی ہوئی گرد کی صفائی کریں۔ شرط لگا لیں کہ نئے نعرے جنم لیں گے، نئے طعن و تشنیع ایجاد کیے جائیں گے، مگر وقت کے امتحان سے گزرنے والے نعرے ایک بار پھر اپنی پائیداری ثابت کر دیں گے۔
پڑھیے: انتخابی مہم کے موضوعات
آئیں سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کے انتخاب کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمیں انتخابی نشانات کے پیچھے موجود علامات اور کہانیوں کا راز جاننے کے لیے ڈین براؤن کے ناولز کا ہیرو پروفیسر رابرٹ لینگڈن نہیں ہونا پڑتا۔ انتخابی نشانات اس لیے ضروری ہوتے ہیں کیوں کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اب بھی پڑھ نہیں سکتی، اور انہیں تاریخی طور پر یہی سکھایا گیا ہے کہ انہوں نے بیلٹ پیپر پر پارٹی کے انتخابی نشان پر مہر لگانی ہے، چاہے امیدوار کوئی بھی ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اصل انتخابی نشان تلوار کو ہی دیکھ لیں۔ پارٹی کے بانی کا نام ایک تاریخی تلوار، یعنی ذوالفقار کے نام پر تھا، اس لیے تلوار پی پی پی کا انتخابی نشان قرار پائی۔ جب خفیہ طاقتیں کسی سیاسی جماعت کے لیے میدان ناہموار کرنے کا فیصلہ کر لیں تو وہ اس کی شناخت یعنی اس کا انتخابی نشان چھین لیتی ہیں۔
پسندیدہ نشان تلوار سے محروم ہوجانے پر پارٹی ایک اور جنگی نشان تیر پر راضی ہوگئی۔ تیر بینظیر کا ہم قافیہ بھی تھا جنہوں نے اس وقت تک پارٹی کی قیادت سنبھال لی تھی۔ مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان شیر بھی طاقت اور عظمت کا نشان ہے۔ انتخابی نشانات کے اس کھیل میں سب سے اہم چال جمعیت علمائے اسلام (ف) نے چلی ہے جو کہ مذہبی جذبات کا استعمال کرتی ہے اور پارٹی کے چند لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس کا انتخابی نشان کتاب درحقیقت قرآن ہے، اس لیے لوگوں کو اسے ووٹ دینا چاہیے۔
پڑھیے: دلچسپ انتخابی نشان
جہاں تک انتخابی اصطلاحات کی بات ہے تو جس چیز کو دنیا بھر میں 'عہدہ سنبھالنا' کہا جاتا ہے، اسے ہمارے پاس 'اقتدار میں آنا' کہا جاتا ہے۔ ووٹروں کو اسی سے خبردار ہوجانا چاہیے کہ آگے ان کے لیے کیا رکھا ہے۔ ایسی ہی ایک ناگوار اصطلاح 'اقتدار کی منتقلی' ہے۔ نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ووٹروں کی ایک تعداد اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایک جماعت کے امیدواروں کی کافی تعداد کو چنتی ہے تاکہ وہ بخود یا پھر بذریعہ اتحاد دوسری جماعتوں کے ساتھ حکومت قائم کر سکے۔
صدر کی جانب سے اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کی 'دعوت' دینا ٹھیک ہے مگر اسے 'اقتدار کی منتقلی' کہنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ منتخب نمائندگی اور آئینی احتساب سے بالاتر ایک قوت ایسا اپنی مرضی سے کرتی ہے۔
'منصفانہ انتخابات' ایک اور تصور ہے جو ہماری انتخابی لغت میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ مغربی جمہوریت، جس کی تقلید کرنے پر سب اتفاق کر چکے ہیں، اس میں آپ زیادہ سے زیادہ امید معقول حد تک دھاندلی سے پاک انتخابات کی کر سکتے ہیں۔ منصفانہ انتخابات کی بات آپ کیسے کر سکتے ہیں جب ایک امیدوار کے پاس اپنی مہم چلانے کے لیے کروڑوں روپے ہوں، جبکہ دوسرا امیدوار کافی تعداد میں بینر بھی نہ لگوا سکے؟ منصفانہ انتخابات کی کیا بات کریں جب ایک جماعت کا امیدوار پورے حلقے میں آزادانہ طور پر مہم چلا سکتا ہے جبکہ اس کے مخالف امیدوار اپنی جان کے خوف سے اپنے گھر سے بھی نہیں نکل سکتے؟
یہ چیز ہم 2013 کی انتخابی مہم میں ملاحظہ کر چکے ہیں جب مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے امیدوار بغیر کسی فکر کے پورے ملک کا دورہ کر پائے جبکہ پی پی پی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ بمشکل ہی مہم چلا پائیں کیوں کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے شراکت دار ملک بھر میں اپنی مرضی سے ان پر حملے کیے جا رہے تھے۔
مزید پڑھیے: سونامی، ڈرون اور میزائل
امیدوار انتخابات میں صرف 'کھڑے' ہوتے یا 'دوڑتے' نہیں بلکہ دوسروں کے حق میں 'بیٹھ' بھی جاتے ہیں۔ اس کا عام طور پر مطلب ایسے امیدوار کو پیسے یا دباؤ کے ذریعے انتخابی مقابلے سے باہر کر دینا ہوتا ہے تاکہ ووٹر ریس میں موجود بہت زیادہ گھوڑوں کے بیچ چکرا نہ جائیں۔ ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت اپنے گڑھ میں ایک صوبائی نشست اس لیے ہار گئی کیوں کہ اس کے ووٹر پینسل اور تیر میں فرق نہیں کر پائے۔ تصور کریں کہ پینسل والے نے تیر والوں کو ایسا چکرا دیا کہ تانگہ پارٹی بہ آسانی آگے نکل گئی۔
ان امیدواروں سے اظہارِ افسوس جنہیں الیکشن کمیشن کی فہرست سے ایسے ایسے ہیرے چننے پڑتے ہیں جن میں بینگن، مگر مچھ، بندوق، استری کا اسٹینڈ، جوتے، تربوز، گوبھی، محدب عدسہ، نیل کٹر، اور اسکرو چننے پڑتے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات سے جڑا سب سے ناشائستہ لفظ 'دھاندلی' ہے کیوں کہ یہ رواج یا اس کا خوف کبھی ختم نہیں ہوتا۔ 'فرشتے'، 'نادیدہ قوتیں'، بوٹس، کندھے پر دو انگلیوں کی تھپکی، اور خلائی مخلوق، سب اس ایک 'مایہ ناز' کھلاڑی کو کہا جاتا ہے جو کتابی طور پر تو سیاسی اکھاڑے سے باہر ہے، مگر کھل کر گندا کھیل کھیلتا ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ آیا 100 روزہ منصوبے میں گزشتہ پانچ سالوں میں شہرت پانے والا دھرنا کلچر شامل ہے یا نہیں۔ کیوں کہ بہرحال، جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 مئی 2018 کو شائع ہوا۔