موت کے منہ تک لے جانے والی تمباکو نوشی سے چھٹکارہ پائیں
سگریٹ کا عادی ہر شخص دن میں جتنی دفعہ سگریٹ جلاتا ہے وہ اتنی ہی بار یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کی زندگی خود اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتی۔
تاریخی حوالہ جات کے مطابق تمباکو نوشی کا استعمال زمانۂ قدیم سے جاری ہے، میکسیکو سے ملنے والے پتھر کے مجسموں سے معلوم ہوا ہے کہ 900 سال قبل مسیح میں بھی تمباکو استعمال کیا جاتا تھا۔
باقاعدہ طور پر 15 اور 16ویں صدی میں امریکا ہجرت کرنے والے افراد نے تمباکو دریافت کیا جو قدرتی طور پر یہاں کثرت سے اگتا تھا۔ اس دور میں عموماً تمباکو کو چبا کر نشہ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اسے ہاتھ کے بنے ہوئے سگریٹوں، سگار اور پائپوں یا درختوں کی چھوٹی کھوکلی نالیوں میں بھر کر پیا جانے لگا۔
19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں جہاں انسانی زندگی میں بڑے پیمانے پر دیگر تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہیں تمباکو یا سگریٹ نوشی بھی ایک وقتی فرحت یا نشے سے اپ گریڈ ہوکر روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتی گئی۔
جنگ عظیم اول اور دوئم میں سگریٹ کی پیداوار میں اس وقت غیر معمولی اضافہ ہوا جب اسے آرمی کا مورال بلند کرنے کے لیئے خاص طور پر فوجیوں کو فراہم کیا جانے لگا۔ یوں کمرشل اہمیت بڑھنے سے سگریٹ بنانے والی نئی کمپنیاں سامنے آتی گئیں، ورائٹی، استعمال اور قیمت بڑھنے کے باعث آج کے ڈیجیٹل دور میں سگریٹ کی محض ایڈورٹائزنگ کے ذریعے ہی کروڑ پتی بنا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ای سگریٹ انسانی خون کے لیے خطرہ
63 سالہ منظور حسین کوئٹہ کے معروف تجارتی مرکز لیاقت بازار میں اپنے بیٹوں کے ساتھ ایک بڑا ڈیپارٹ مینٹل اسٹور چلاتے ہیں۔ انہیں 35 برس کی عمر میں دل کا پہلا دورہ اس وقت پڑا جب ان کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت کو محض چند دن ہی ہوئے تھے۔ ڈاکٹرز کی تنبیہ کے باجود وہ کثرت سے سگریٹ پینے کی اپنی پرانی عادت پر قابو پانے سے قاصر رہے اور یوں صرف سات برس بعد ان کو ایک دفعہ پھر دل کا دورہ پڑا۔ اس گھمبیر صورتحال میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ گھر والوں، دوست و احباب اور ڈاکٹرز کی مدد سے انہوں نے چند برس میں اس بری لت سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلی اور گزشتہ 20 برس سے ایک صحت مند زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ ان کی عمر کے دیگر افراد طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں۔
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، بے راہ وری، گرتی ہوئی معاشری و اخلاقی اقدار کے باعث نشے کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جن میں سگریٹ نوشی سر فہرست ہے۔
ایک عالمی سروے کے مطابق ہر برس اسموکنگ اور اس سے پیدا شدہ دیگر جسمانی امراض کے باعث 80 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ اگرچہ تمباکو نوشی صرف دل کے امراض کا سبب ہی نہیں بنتی بلکہ اس سے پورے جسم میں دورانِ خون متاثر ہونے کے علاوہ گردے اور پھیپھڑے بھی جلد ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ مگر ایک عالمی تحقیق کے مطابق سگریٹ نوشی سے دل کی بیماریوں کا خدشہ 8 گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس کے عادی افراد کے دل کی شریانیں 3 گنا سکڑ جاتی ہیں اور بعض اوقات ان میں سوراخ بھی ہو جاتے ہیں اور یہ امراض 50 برس سے کم عمر افراد میں بھی دیکھے گئے ہیں اس میں عمر کی کوئی تخصیص ہر گز نہیں ہے۔
28 سالہ عیوض علی کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا جن کا خاندان کئی عشرے قبل ایران کے شہر زاہدان سے کوئٹہ منتقل ہوا، اس وقت عیوض علی محض ایک برس کے تھے۔ یونیورسٹی آف بلوچستان سے جیوگرافی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد یہ نوجوان کئی برس تک بےروز گار رہنے کے بعد گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے بھائی کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ 16 فروری 2018 کو علی الصبح عیوض علی کو پڑنے والا دل کا دورہ اس قدر شدید تھا کہ ان کے گھر والوں کو انہیں ہسپتال لے جانے کا موقع بھی نہیں ملا۔ عیوض علی کی اچانک ناگہانی وفات صرف ان کے گھر والوں کے لیے ہی ناقابل برداشت نہ تھی بلکہ اس موت سے اس لڑکی کے گھر میں بھی صف ماتم بچھ چکی تھی جس سے دو ماہ بعد ان کی شادی طے پا چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: صرف ایک سگریٹ, جسم پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
بظاہر ہر طرح سے صحت مند اور چاک و چوبند شخص کی اچانک موت نے کئی طرح کی چہ مگوئیوں کو جنم دیا، یہاں تک کے کچھ ضعیف العقیدہ خواتین کی جانب سے تعویز گنڈوں اور جادو ٹونے کی بازگشت بھی سنائی دی، مگر اس جانب زیادہ تر افراد نے توجہ ہی نہیں دی کہ دل کا یہ جان لیوا دورہ دراصل کثرت سگریٹ نوشی کا سبب تھا جس کی لت عیوض علی کو یونیورسٹی کلاس فیلوز سے پڑی جو کئی برس پر محیط بے روزگاری کے تکلیف دہ دور میں شدید ہوتی گئی۔ چونکہ وہ گھر والوں سے چھپ کر سگریٹ پیا کرتے تھے اس لیے زیادہ تر افراد ان کی موت کی اصل وجہ سے بے خبر ہی رہے۔
ماہرین قلب کے مطابق 'میو کارڈیئل انفیریشن' یا ہارٹ اٹیک اس وقت ہوتا ہے جب چربی خون کی شریانوں میں جم جاتی ہے یا شہمی مادوں کے جم جانے کے باعث ان میں رکاوٹ آجاتی ہے۔ اکثر اوقات 'بلڈ کلاٹ' یا خون کے لوتھڑے بھی شریانوں کو بند کر دیتے ہیں۔ جس سے دل کو آکسیجن کی مسلسل فراہمی میں خلل پڑتا ہے اور یوں خون کی روانی رک جاتی ہے۔ اگر یہ خلل مستقل رہے تو آکسیجن نہ ملنے کے باعث دل کا متاثرہ حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جو ہارٹ اٹیک کا سبب بنتا ہے۔۔ دل کے دورے کی علامات عو رتوں اور مردوں میں یکساں نہیں ہوتیں۔ مردوں کو اچانک سینے میں شدید درد محسوس ہوتا ہے جو کچھ ہی دیر میں کمر کے اوپر کے حصے، گردن، جبڑے اور بازوؤں میں پھیل جاتا ہے اور شدت سے چکر اور پسینہ آنے لگتا ہے۔ مگر عورتوں میں یہ علامات نہیں دیکھی گئیں۔ اگر یہ اچانک اٹیک دل کے حساس مقام یا بڑے حصے پر ہو تو متاثرہ شخص کی فوراً ہی موت واقع ہوجاتی ہے اور اسے طبی امداد دینے کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔
ہر برس کی طرح 31 مئی 2018 کو دنیا بھر میں سگریٹ و تمباکو نوشی کے خلاف عالمی دن "سے نو ٹو اسموکنگ" (say no to smoking) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ رواں برس اس دن کا تھیم ’سگریٹ نوشی اور دل کے امراض' رکھا گیا ہے تاکہ دنیا بھر میں یہ شعور اجاگر کیا جاسکے کہ بڑھتے ہوئے دل کے امراض کی ایک بڑی وجہ کثرت تمباکو نوشی ہے۔ ایک عالمی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات دل کے امراض کے سبب ہوتی ہیں جن کی ایک بڑی وجہ اسموکنگ ہے۔ اس سے نا صرف اس کے عادی افراد کی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ مسلسل نکوٹین اور دھویں کی زد میں رہنے کی وجہ سے ان کے ساتھ رہنے والے افراد بھی اتنے ہی خطرے کی زد پر ہوتے ہیں۔ سگریٹ کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک میں تمباکو والا پان، مین پوری کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے جن میں اندرون سندھ کے علاقے حیدر آباد، سکھر، نواب شاہ قابل ذکر ہیں۔
تمباکو ملی ان اشیاء کے مسلسل استعمال سے ان علاقوں میں منہ، حلق اور کئی طرح کے کینسر کے مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ تمباکو پینے کا ایک اور ذریعہ حقہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے دیہاتوں میں تقریباً 400 سال سے استعمال کیا جارہا ہے مگر اب ماڈرن لائف سٹائل رکھنے والے افراد میں یہ 'شیشہ' کہلاتا ہے۔ اس میں تمباکو کے ساتھ عموماً مولیسز، پھلوں کا گودہ، ناریل، کافی، پھلوں کا ذائقہ، شہد اور نشے کے لیے دوسری اشیاء شامل کی جاتی ہیں۔ جس کے باعث یہ سگریٹ کی نسبت نوجوان نسل میں زیادہ تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ روزانہ شیشہ پینے کی صورت میں اتنی ہی مقدار میں نکوٹین ان کے جسم میں منتقل ہو رہی ہے جتنی ہر روز 10 سگریٹ پینے والےشخص کے خون میں شامل ہوتی ہے۔ ایک عام سگریٹ میں 7 سے 22 ملی گرام تک نکوٹین ہوتی ہے جس میں سے ایک ملی گرام سگریٹ پینے والے کے خون میں منتقل ہوجاتی ہے۔ عام افراد میں اس حوالے سے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ حقہ سے سگریٹ کی نسبت نکوٹین کے خون میں منتقل ہونے کا خطرہ نسبتاً کم ہوتا ہے۔ در حقیقت ایسا نہیں ہے اور شیشہ یا حقے کا استعمال بھی کینسر اور دل کے متعدد امراض جیسے کورونری ہارٹ ڈیسز (خون کا انجماد اور لوتھڑے بن جانا)، پیری فیرل ویسکیولر ڈیسز (خون کی شریانوں کا سکڑنا) کو جنم دے رہا ہے اور نوجوان نسل بے راہ وری میں اندھا دھند خود کو اس کے دھویں کی نظر کر رہی ہے۔
ہارٹ سپیشلسٹ کے مطابق بلند فشار خون کے علاوہ دل کے امراض میں 12 فیصد اموات تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کثرت سے سگریٹ پینے والے افراد کا خون آہستہ آہستہ گاڑھا ہونے لگتا ہے اور خون کے لوتھڑے شریانوں میں پھنس جاتے ہیں جو پہلے ہی سکڑ کر عام سائز سے چھوٹی ہو چکی ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں: دنیا کا ہر پانچواں شخص تمباکو کا عادی
تمباکو کے جلنے سے کاربن مونو آکسائیڈ گیس خون میں شامل ہوجاتی ہے جس سے دل کو آکسیجن کی فراہمی میں خلل پڑتا ہے جو لا محالہ دل کی پمپنگ پر اثر انداز ہوتا ہے اور جسم کو متواتر خون کی فراہمی کے لیے اس سے زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں عام افراد کی نسبت سموکرز کا دل دباؤ کے باعث جلدی تھک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ میں موجود نکوٹین سموکرز کے جسم میں ایڈرینالائن ہارمونز پیدا کرتی ہے جو گردوں کے غدود سے حرام مغز تک رستا ہے۔ اس سے نا صرف دل دھڑکنے کی رفتار اور بلڈ پریشر بڑھتا ہے بلکہ دل کے عضلات کی کارکردگی براہ ِ راست متاثر ہوتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ ناکارہ ہونے لگتے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ یہ مذکورہ بالا تمام امراض صرف سموکرز ہی میں مشاہدہ نہیں کیئے گئے بلکہ ان افراد کے اہل خانہ، دوست و احباب حتیٰ کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی اسموکنگ کی وجہ سے براہ راست ان کی زد میں آتے ہیں۔ ماہرینِ قلب کے مطابق وہ خواتین جن کے شوہر، باپ یا بھائی اس لت کا شکار ہوتے ہیں ان میں دیگر خواتین کی نسبت زیادہ امراض ِ دل مشاہدہ کیئے گئے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹیڈ روز کے مطابق 31 مئی 2018 کو منائے جانے والے نو اسموکنگ ڈے پر ڈبلیو ایچ او، مقامی حکومتوں اور این جی اوز کی مدد سے دنیا کے ہر خطے میں ورکشاپس اور سیمینار منعقد کروا رہی ہے تاکہ لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا جاسکے کہ سگریٹ نوشی وہ زہر ہے جو آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے پیاروں اور ارد گرد کے افراد کی بربادیِ صحت کا بھی باعث بن رہا ہے۔ جو کسی نیوکلیئر ہتھیار سے کم خطرناک نہیں ہے۔ لہذا ٰ اس کے سد باب کے لیئے ایک جنگی حکمت ِ عملی اپنانا ناگزیر ہے۔
2018 کی عالمگیر 'نو اسموکنگ مہم' کے لیئے جو ترجیحات مختص کی گئی ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
1۔ مقامی حکومتوں کو تمباکو نوشی کے خلاف ایک موثر مہم چلانے کے لیئے ہر طرح کا تعاون اور مالی مدد فراہم کیا جائے، جس میں ترقی پزیر ممالک کو اولیت دی جائے، جہاں کی حکومتیں اس بدترین لت کے زہریلے اثرات سے ابھی تک پوری طرح آگاہ نہیں ہیں یا اتنے وسائل نہیں رکھتیں کہ عوام میں شعور و آگاہی بیدار کرنے کی کوشش کریں۔
2۔ مقامی این جی اوز کی مدد سے کثرت سے ورکشاپس اور سیمینار کا انعقاد کیا جائے جن کے ذریعے متاثرہ افراد کو سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے امراض قلب سے آگاہ کیا جائے اور ساتھ ہی اس امر سے بھی آگاہ کیا جائے کہ انکی یہ عادت 'سیکنڈ اسموکنگ' کی صورت میں دیگر افراد کی صحت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
3۔ سگریٹ نوشی کے عادی افراد کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں یا ان کے اہل ِ خانہ میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ وہ اس شخص کی بری عادت کو چپ چاپ برداشت کرنے کے بجائے اس سے نجات حاصل کرنے میں اسکی بھرپور اخلاقی مدد کریں۔
4۔ سگریٹ کے پیکٹس پر محض ' تمباکو نوشی صحت کے لیئے نقصان دہ ہے' ہی لکھ دینا کافی نہیں ہے، کیونکہ اخلاقی و معاشرتی قدروں کے زوال کے باعث فی زمانہ لوگ بے حس ہو چکے ہیں، ایسے میں کسی بھی بڑے ذہنی و جسمانی حادثے، بریک اپ یا دیگر سماجی و معاشرتی مسائل سے متاثرہ حساس شخص کو نشے میں ہی پناہ محسوس ہوتی ہے اور اس شخص میں اس بدترین عادت کی ہلاکت خیزی کا شعور بیدار کرنے اور روکنے کے لیئے پیکٹس کے ڈیزائنز کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہاتھ میں لیتے ہی اسے احساس ہو کہ وہ سگریٹ نہیں بلکہ موت خرید رہا ہے۔
5۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ایم پاور مقامی حکومتوں کی ایک ایسی مؤثر پالیسی بنانے میں بھرپور مدد کریگی جس سے دفاتر، تعلیمی اداروں اور پبلک مقامات کو مکمل طور پر اسموکنگ فری بنایا جاسکے۔
6۔ چونکہ آج کی نوجوان نسل سگریٹ سے زیادہ سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہے لہذاٰ نوجوانوں کو اس کی ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنے کا بہترین پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے۔ جس کے لیئے ڈیجیٹل، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم مہم چلائی جا سکتی ہے۔