• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

شیخ رشید، عمران خان کو سب سے زیادہ سیکیورٹی افسر فراہم کیے جانے کا انکشاف

شائع May 29, 2018

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو سرکاری خرچ پر سب سے زیادہ سیکیورٹی افسر فراہم کیے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے خصوصی سیکریٹری رضوان ملک نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا کہ شیخ رشید احمد کو 5 سیکیورٹی افسران فراہم کیے گئے جبکہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن کو 4، 4 افسر فراہم کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے سیکیورٹی خطرات کی نشاندہی کے باعث ان شخصیات کو سیکیورٹی افسر فراہم کیے گئے، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ افسران کو مقرر کرنے میں کوئی تفریق نہیں کیونکہ کسی کو بھی سیکیورٹی کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: غیرمتعلقہ افراد کی سیکیورٹی پر مامور 13 ہزار سیکیورٹی اہلکار واپس

انہوں نے بتایا کہ ان شخصیات کے علاوہ سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، وسیم سجاد اور نیئر حسین بخاری، سابق وزیر قانون زاہد حامد، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور رحمٰن ملک، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمٰن اور وفاقی ٹیکس محتصب مشتاق احمد سکھیرا کو 2 سیکیورٹی افسران فراہم کیے گئے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک، وفاقی محتسب کشمالہ طارق اور دیگر اداروں کے سربراہوں کو ایک ایک افسر فراہم کیا گیا۔

اس دوران کمیٹی کے رکن سینیٹر چوہدری تنویر نے سوال کیا کہ کس طرح شیخ رشید احمد سب سے زیادہ سیکیورٹی کا حقدار سمجھا جاتا ہے؟ یہ نہ انصافی ہے کہ 2 پولیس کی گاڑیاں ہر وقت ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔

سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ شیخ رشید پر پہلے خود کش حملہ ہوچکا ہے جبکہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل سیکیورٹی وقار چوہان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کو صرف وفاقی دارالحکومت کی حدود کے درمیان اسلام آباد پولیس کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔

اس موقع پر اجلاس میں مدعو کیے گئے جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری نے وزارت داخلہ کے دعوے کو مسترد کیا کہ ہر فرد کو خطرات کے حساب سے سیکیورٹی دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کسی ایجنسی نے سیکیورٹی خطرات سے آگاہ نہیں کیا تھا لیکن 12 مئی 2017 کو مجھ پر بلوچستان میں حملہ ہوا، جس میں 26 افراد ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہوئے، تاہم میں خوش قسمتی سے محفوظ رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ تھا تو مجھے سیکیورٹی فراہم کی جاتی تھی لیکن اس کے بعد متعدد درخواستوں کے باوجود مجھے ایک افسر تک فراہم نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: صوبوں کو اہم شخصیات کی سیکیورٹی کا طریقہ کار وضع کرنے کا حکم

عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ میں نے اس معاملے پر پولیس سربراہان، یہاں تک کہ وزارت داخلہ تک کو خط لکھا لیکن کسی نے میرے معاملے پر توجہ نہیں دی۔

مولانا غفور حیدری کے اعتراض پر سینیٹر جاوید عباسی نے کا کہنا تھا کہ آپ کو فراہم کی گئی سیکیورٹی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے حکم کے بعد واپس لی گئی۔

یاد رہے کہ اپریل میں چیف جسٹس پاکستان نے تمام صوبوں کے پولیس سربراہاں کو ہدایت کی تھی کہ جو بااثر افراد سرکاری سیکیورٹی کے اہل نہیں ان سے سیکیورٹی واپس لے لی جائے، تاہم بعد ازاں انہوں نے کہا تھا کہ جنہیں خطرات ہیں انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024