نگران حکومت کا پاکستانی فارمولا کتنا کامیاب، کتنا ناکام؟
مملکتِ خداداد پاکستان کی 7ویں نگران حکومت کے سربراہ کا قرعہ فال، سابق چیف جسٹس اور سابق قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک کے نام نکلا ہے۔ ملک کے 7ویں نگران وزیرِاعظم 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے پاکستان کے 11ویں عام انتخابات کی نگرانی کریں گے اور اس دوران عارضی طور پر امورِ حکومت چلائیں گے۔
1973ء کے آئین میں بنیادی طور پر نگران حکومت سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں عام انتخابات سے قبل نگران حکومت بنانے اور اس نگران حکومت کی سربراہی میں نئے انتخابات کرانے کا تصور 1977ء کے بعد پروان چڑھا جب بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد نے تحریک شروع کی اور 1977ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
پڑھیے: ہمیں نگراں حکومت کی ضرورت کیوں نہیں ہے
1977ء میں جنرل ضیاء مارشل لاء کے 8 سال بعد 1985ء میں ہونے والے ملک کے تیسرے عام انتخابات جو کہ غیر جماعتی تھے، کا انعقاد کسی نگران حکومت کے بجائے فوجی صدر کی نگرانی میں ہوا۔ 1988ء میں ہونے والے پاکستان کے چوتھے عام انتخابات، صدر غلام اسحاق خان کی حکومت کی نگرانی میں ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِاعظم بنیں۔
کون اور کب کب نگران وزیراعظم رہا
ملک کے پہلے نگران وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی تھے جنہوں نے 6 اگست 1990ء سے لے کر 6 نومبر 1990ء تک نگران حکومت کی سربراہی کی اور ان کی زیرِ نگرانی 1990ء میں پاکستان کے 5ویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، انتخابات کے بعد میاں نواز شریف پاکستان کے وزیرِاعظم بنے۔
میر بلخ شیر مزاری 18 اپریل 1993ء سے 26 مئی 1993ء تک ملک کے دوسرے نگران وزیرِاعظم رہے۔ ملک کے تیسرے نگران وزیرِاعظم معین قریشی تھے جنہوں نے 18 جولائی 1993ء سے 19 اکتوبر 1993ء تک یہ ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ انہی کی زیرِ نگرانی 1993ء میں پاکستان کے چھٹے عام انتخابات منعقد کیے گئے جس کے بعد بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔
ملک معراج خالد ملک کے چوتھے نگران وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں 5 نومبر 1996ء سے 17 فروری 1997ء تک انجام دیں۔ انہی کی سربراہی میں 1997ء میں ملک کے 7ویں عام انتخابات منعقد ہوئے اور نواز شریف دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔
پاکستان میں 2002ء میں ہونے والے 8ویں عام انتخابات جنرل مشرف کی فوجی حکومت کی نگرانی میں منعقد کیے گئے جس کے نتیجے میں میر ظفر اللہ جمالی ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔
محمد میاں سومرو نے 16 نومبر 2007ء سے 25 مارچ 2008ء تک ملک کے 5ویں نگران وزیراعظم کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان کی زیرِ نگرانی 2008ء میں ملک کے 9ویں عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔
18 ترمیم آئینی ترمیم کے بعد نگران وزیرِاعظم کی تقرری کیسے ہوتی ہے؟
18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں نگران حکومت، نگران وزیراعظم اور اسی طرح چاروں صوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ اور نگران حکومتوں کے حوالے سے نیا طریقہ کار متعارف کروایا۔ نئے طریقہ کار میں پہلے حکومت اور اپوزیشن، پھر پارلیمنٹ اور آخر میں الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں شامل کیا گیا ہے۔
پڑھیے: ’وزیرِاعظم زرداری سننے میں عجیب ضرور، مگر ناممکن نہیں!‘
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 224 کے تحت صدرِ پاکستان، نگران وزیراعظم کا تقرر کریں گے لیکن صدرِ پاکستان یہ تقرری اپنی مدت پوری کرنے والی اسمبلی کے وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے۔ روایتی طور پر وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر 3، 3 نام ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے جن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے صدرِ پاکستان کو بھجوا دیا جائے گا، جس پر صدر مہر تصدیق ثبت کردیں گے۔
اگر اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد 3 دن تک حکومت اور اپوزیشن کسی ایک نام پر اتفاق نہ کرسکیں تو اسپیکر اسمبلی ایک کمیٹی بنائیں گے۔ اس کمیٹی میں 4 نمائندے حکومت کے اور 4 اپوزیشن کے ہوں گے۔ ان کے سامنے دونوں طرف سے 2، 2 نام پیش کیے جائیں گے۔ 3 دن کے اندر اندر یہ کمیٹی کسی ایک نام پر اتفاق کرے گی، جس کسی کو بھی یہ کمیٹی منتخب کرے گی صدرِ پاکستان اسے نگران وزیراعظم مقرر کردیں گے۔
اگر کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو چاروں نام الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان 2 دنوں میں ان چاروں ناموں میں سے ہی کسی ایک نام کو منتخب کرنے کا پابند ہوگا۔ یہ نام سب کو تسلیم کرنا ہوگا اور صدرِ پاکستان اسی شخص کو نگران وزیرِاعظم مقرر کردیں گے۔
یعنی اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد 8 دنوں میں ہر صورت نگران وزیراعظم کا انتخاب ہوجائے گا۔ یہی طریقہ صوبائی نگران سیٹ اپ کے لیے بھی آئین کے آرٹیکل 224 میں درج ہے۔
اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد نگران وزیرِاعظم کے انتخاب میں اگر 8 دن لگتے ہیں تو آئین کے مطابق اس دوران موجودہ وزیراعظم ہی فرائض سر انجام دیں گے۔ یہی طریقہ صوبائی سطح پر بھی اپنایا جائے گا۔
پاکستان کے چھٹے نگران وزیراعظم، جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کا انتخاب اسی طریقہ کار کے تحت کیا گیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں گیا، وہاں پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس آیا اور پھر الیکشن کمیشن نے میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیرِاعظم مقرر کردیا۔ وہ 25 مارچ 2013ء سے 5 جون 2013ء تک نگران وزیر اعظم رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی 2013ء میں پاکستان کے 10ویں عام انتخابات منعقد کیے گئے جن کے نتیجے میں میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔
پاکستان میں 11ویں عام انتخابات کے لیے ملک کے 7ویں نگران وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قائدِ ایوان یعنی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائدِ حذب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان اس اہم فیصلے پر پہنچنے کے لیے مشاورت کا سلسلہ 2 ہفتوں سے زائد تک جاری رہا۔
پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟
یہ مشاورت آئین میں نگران وزیراعظم کے انتخاب کے لیے تجویز کردہ طریقہ کار کے تحت ہوئی۔ دونوں کے درمیان پہلے مرحلے پر ہی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے 3 دن قبل، ایک نام پر انتخاب کرلیا گیا۔ دونوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیے گئے اعلان کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک پاکستان کے 7ویں نگران وزیراعظم ہیں جو 25 جولائی 2018ء کو ملک میں ہونے والے 11ویں عام انتخابات کی نگرانی کریں گے۔
نگران وزیرِاعظم اور حکومت کے اختیارات
- الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017ء کے مطابق نگران حکومت کا کام صاف، شفاف اور غیر جانبدارنہ انتخابات کا انعقاد اور روزمرہ کے حکومتی امور انجام دینا ہے۔ نگران حکومت خود کو روزمرہ سرگرمیوں، غیر متنازع، اہم اور عوامی مفاد کے معاملات اور ان اقدامات تک محدود رکھے گی، جن کو مستقبل میں آنے والی حکومت واپس بھی لے سکے۔
- نگران حکومت کے پاس کوئی بڑا پالیسی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ نگران حکومت کوئی ایسا فیصلہ یا پالیسی بھی نہیں بناسکتی جو آئندہ حکومت کے فیصلوں پر اثرانداز ہو۔ نگران حکومت عوامی مفاد کے خلاف کوئی بڑا معاہدہ نہیں کرسکتی۔
- نگران حکومت کسی ملک یا بین الاقوامی ادارے کے ساتھ 2 طرفہ مذاکرات کا حصہ بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرسکتی ہے جب تک کہ ایسا کرنا انتہائی ضروری نہ ہو۔
- نگران حکومت، سرکاری ملازمین کی تقرریاں، تبادلے یا ترقیاں بھی نہیں کرسکتی۔ ایسا صرف عوامی مفاد میں مختصر مدت کے لیے ہی کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضروری قرار دیے جانے پر ہی عوامی عہدہ رکھنے والے افسران کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔
- نگران حکومت کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرسکتی جو عام انتخابات کی شفافیت پر اثر انداز ہوسکے۔
- نگران حکومت کے اراکین کو کسی قسم کی مراعات تاحیات نہیں ملتیں۔ یہاں تک کہ نگران وزیرِ اعظم کے پاس حکومت کی میعاد ختم ہونے پر کوئی مراعات نہیں ہوتیں۔
نگران وزیراعظم کی ضرورت کیوں؟
اب تک بنائی گئی تمام نگران حکومتوں اور نگران وزرائے اعظم کے عام انتخابات میں کردار کا جائزہ لیا جائے تو 1990ء سے لے کر 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی حالات اور واقعات کوئی زیادہ حوصلہ افزاء نظر نہیں آتے۔
پڑھیے: انتخابات 2018: کیا نوجوان سیاسی منظرنامے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں؟
پاکستان کے پہلے نگران وزیراعظم کی نگرانی میں کرائے گئے عام انتخابات 1990ء پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔ ان انتخابات میں نگران حکومت، آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی کے کردار پر اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے اور اِن دنوں بھی سپریم کورٹ ایک مرتبہ پھر اصغر خان کیس کے فیصلے پر حکومتی عمل درآمد کا جائزہ لیتی نظر آتی ہے۔
پاکستان کے چھٹے نگران وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کی نگرانی میں کرائے گئے عام انتخابات 2013ء کے نتائج سے ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنوں نے جنم لیا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ عدالتی کمیشن سے ان انتخابات میں منظم دھاندلی نہ ہونے کا فیصلہ آنے کے باوجود، صرف پاکستان تحریکِ انصاف ہی نہیں بلکہ مختلف صوبوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام بھی ان انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھاتی نظر آئیں۔
کتنا دلچسب اتفاق ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں مبیّنہ دھاندلی پر بنائے گئے عدالتی کمیشن کی سربراہی کرنے والے جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو ملک میں آئندہ عام انتخابات 2018ء کے لیے نگران وزیراعظم منتخب کیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اتفاق رائے کے نتیجے میں منتخب ہونے والے ملک کے 7ویں نگران وزیراعظم پر پاکستان تحریک انصاف نے بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
تاہم ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا زیادہ غلط نہ ہوگا کہ جلد یا بدیر ملک کی سیاسی جماعتوں، پارلیمان، الیکشن کمیشن اور جمہوریت کے فریقین کو پاکستان میں موجود نگران سیٹ اپ کے اس انتہائی منفرد عارضی نظام سے آگے نکلنا ہوگا۔
گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمسایہ ملک بھارت میں نئے انتخابات سے پہلے نگران سیٹ اپ کی غیر موجودگی اور تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجانے کی مثال ہو یا پھر بنگلہ دیش میں نگران سیٹ اپ کا تجربہ کرکے نارمل طریقہ کار کی طرف لوٹنے کا فیصلہ، دونوں کیسز کو اپنے سامنے رکھ کر، مستقبل کی پارلیمان سے کسی دلیرانہ فیصلے کی امید لگائی جاسکتی ہے۔