سی سی آئی اجلاس: مردم شماری کے نتائج کی منظوری پر اختلاف
اسلام آباد: مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں مردم شماری 2017 کے نتائج آڈٹ کیے بغیر منظور کرانے پر اختلافات سامنے آگئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مردم شماری کے نتائج سی سی آئی سے منظور کرانے کی کوشش کو معاہدے کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مخالفت کردی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو بڑھتی آبادی سے کن مسائل کا سامنا ہے؟
مردم شماری سے متعلق عالمی قوانین کے مطابق مردم شماری سے حاصل شدہ نتائج کا محدود پیمانے پر آڈٹ کرایا جاتا ہے، جو 30 دن کے اندر کرانا لازمی ہوتا ہے۔
حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے مردم شماری کے متنازع نتائج پر اپوزیشن جماعت سے معاہدہ کیا تھا کہ آبادی کے 5 فیصد حصے کا آڈٹ آزاد فریق سے کرایا جائے گا لیکن وفاقی حکومت نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں مردم شماری سے متعلق امور پر تفصیل سے بات چیت ہوئی، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اجلاس میں کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی میں نتائج کی منظوری کرنا جلد بازی کے مترادف ہے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ اجلاس میں شریک ایک اور شرکاء نے کہا کہ سندھ اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بروز پیر (آج) تحلیل ہو جائیں گی اس لیے انتخابات کے بعد ہی مردم شماری کے نتائج پر حتمی فیصلہ لینا چاہیے۔
مزید پڑھیں: کیا مردم شماری میں واقعی کراچی کی آبادی کم دکھائی گئی ہے؟
پارلیمنٹ کی جانب سے انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے قوانین میں تبدیلی کی بنیاد پر سی سی آئی کے اجلاس میں مردم شماری کے صوبائی نتائج کی تصدیق کردی گئی تاہم صوبائی نتائج کو حتمی شکل نہیں دی گئی جبکہ یہ تاثر عام ہے کہ سی سی آئی کو اس معاملے سے دور رہنا چاہیے تاکہ یہ معاملہ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز نہ ہو۔
تاہم اجلاس میں محکمہ شماریات کی جانب سے پیش کردہ چھٹی مردم شماری کے نتائج کی منظوری متفرق رائے کی بنیاد پر تعطل کا شکار ہو گئی۔
دوسری جانب محکمہ شماریات نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بتایا تھا کہ کہ تھرڈ پارٹی آڈٹ کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مردم شماری 15 مارچ سے 25 مارچ 2017 تک رہی تھی، اب بہت وقت گزر جانے کے بعد آڈٹ کے فوائد حاصل نہیں ہوں گے کیونکہ پاکستان میں داخلی طور پر بہت زیادہ نقل مکانی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ عالمی قوانین کے مطابق مردم شماری مکمل ہونے کے 30 دن کے اندر آڈٹ کرانا ہوتا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے آڈٹ کرانے کا عمل مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔
یہ پڑھیں: مردم شماری میں اور کیا کیا شمار ہونا چاہیئے تھا
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے مردم شماری کے نتائج کو ‘فراڈ’ قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کیا تھا۔
محکمہ شماریات نے پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج جاری کیے تھے جس کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے جس میں گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر کے نتائج شامل نہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق 1998 کی مردم شماری کے مقابلے میں 2017 میں آبادی میں 2 اعشاریہ 4 فیصد کی شرح سے 7 کروڑ 54 لاکھ 22 ہزار 241 افراد کا اضافہ ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے مزید پڑھیں: مردم شماری: پیپلز پارٹی کا آڈٹ کے بغیر ’نتائج کے اعلان‘ پر احتجاج
2017 کی مردم شماری کے عبوری نتائج میں پنجاب کی آبادی 11 کروڑ سے زائد تک پہنچ گئی ہے۔
سندھ کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 90 ہزار ہوگئی ہے، خیبر پختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 52 لاکھ اور بلوچستان کی آبادی 1 کروڑ 23 لاکھ 40 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔
یہ خبر 28 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی