• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ایک ’قومی ایکشن پلان‘ اور چاہیے!

شائع May 28, 2018

دہشت گرد کو مارا جاسکتا ہے، انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، پُرتشدد واقعات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے، ٹارگٹ کلنگ کی بھی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہمیں اپنا دشمن نظر آتا ہو، پھر ہم انتہاپسندوں کے خلاف منظم آپریشنز کرسکتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کو گرفتار کرکے کٹہڑے میں لاکر ان کے کیے کی سزائیں سناسکتے ہیں، اس طرح ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اگر ہم اپنے دشمن کو دیکھ ہی نہ سکتے ہوں تو؟

اگر ہمارا دشمن ہمیں تابکار شعاؤں سے ہی مار دے؟ نہ اس کا کوئی ٹھکانہ ہو؟ جہاں چھاپا پڑسکے، نہ ہی کوئی بیانیہ ہو؟ جس کے مقابلے میں ایک بہتر، مثبت اور پرامن بیانیہ پیش کیا جاسکے۔ دشمن چھپ کر حملہ نہ کرے بلکہ کھلم کھلا، دن دہاڑے اپنے شکار کو موت کے گھاٹ اتار دے!

نہ خون بہے، نہ آواز آئے، چاروں طرف لاشوں کا انبار ہو، قبریں کم پڑجائیں اور اجتماعی قبروں کا انتظام کرنا پڑے! دشمن صفِ ماتم پر بھی حملہ آور ہوجائے، اپنے پیاروں کے غم میں ڈوبے لوگوں پر بھی قاتلانہ شعاؤں کی بوچھاڑ کردے۔ امیر، غریب، مسلم، مسیح کسی کا لحاظ نہ کرے۔ بوڑھے، بچے، جوان، مرد و زن سب کو ایک ہی شدت سے مارے، کوئی ہتھیار اس پر اثر نہ کرے، وہ جب، جہاں، جس کو چاہے ’ٹھونک‘ دے، وی وی آئی پی پروٹوکول بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے، نہ کوئی بم نہ میزائل اس کو نقصان پہنچا سکے، تو ایسے سفّاک اور جابر دشمن سے آپ کیسے نمٹیں گے؟

موجودہ حالات میں تو ایسا ممکن نہیں ہے!

آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کون سا نیا دشمن پیدا ہوگیا ہے؟ تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ بھی اس دشمن کو جانتے ہیں، اس دشمن کا نام ہے ’گلوبل وارمنگ‘ یعنی عالمی حرارت۔ صرف 2015ء میں ہی کراچی میں اس نئے دشمن نے 2000 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اسپتالوں میں ایمرجسنی نافذ تھی، بستر کم پڑگئے تھے، مریضوں کو وہیل چیئر پر ایڈمٹ کیا جارہا تھا، شاید ہی شہر کا کوئی ایسا گھر ہو جو اس دشمن سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جنازے اٹھے تو جنازوں میں شرکت کے لیے آنے والوں کے بھی جنازے اٹھ گئے تھے۔

اب اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بحث چل پڑی ہے کہ اس سے کیسے نجات حاصل کریں؟ کیا حل نکالیں، تو میرے نذدیک تو اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے، اور وہ ہیں درخت، اور درخت، مزید درخت.

سیدھا سیدھا سا حساب ہے، پر شخص اپنے حصے کا ایک درخت لگا دے، بس! یہ درخت گرمی کی حدت کو بھی کم کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائڈ کو بھی جزب کرتے ہیں اور ہمیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ آسان ترین حل ہے، لیکن افسوس بلکہ تف ہے کہ ہم نے اس جانب کوئی بھی ثابت یا جامد قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اگر کراچی کی بات کریں تو صرف ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی نے یہ تدبیر اپنائی ہے کہ ہر گھر کے باہر ایک درخت لگایا جائے۔

پڑھیے: کیا کراچی گرمی کی اگلی شدید لہر کے لیے تیار ہے؟

لیکن کیا یہ مسئلہ صرف ڈیفینس کا ہے؟

جی نہیں! یہ مسئلہ پورے کراچی، سندھ، پاکستان، بلکہ پوری دنیا کا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے اس خطرے کو بہت پہلے ہی محسوس کرلیا تھا، اس مسئلے کے تدارک کے لیے 1992ء میں برازیل کے شہر ریو میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا اور ’انوائرنمنٹل سسٹین ابلٹی‘ (ماحولیاتی پائیداری) کو ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کا حصہ بنایا گیا، لیکن ہم نے ’سانوں کی‘ کے فلسفے پر عمل کیا، ہر سال پاکستان میں سیلاب آتے رہے لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، اور آخرکار 2015ء میں ہم نے گرمی کے باعث لاتعداد اموات بھی دیکھیں۔

میرے علم میں صرف چند ایسے ادارے ہیں جنہوں نے اس مسئلے کا تدارک کرنے کی ٹھانی، لیکن انہیں حکومتی سرپرستی حاصل نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے وسائل انتہائی محدود اور ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، جو کام ووٹ مانگ کر الیکشن جیتنے والوں کو کرنا چاہیے تھا وہ کام فقط نوجوان اور بچّے ہی کرتے نظر آتے ہیں۔

صرف خیبر پختونخوا کی حکومت نے عہد کیا تھا کہ وہ نئے جنگلات لگائے گی، اچھی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اس عذاب سے کافی حد تک محفوظ ہے کیونکہ وہاں قدرتی طور پر کافی ہریالی ہے، لیکن ہمیں وفاقی، صوبائی، بلدیاتی، نجی اور ذاتی بنیادوں پر شجرکاری کے عمل میں حصہ لینا ہوگا۔

اور یہ کام اب ایک ایک، دو دو افراد کے کرنے کا نہیں رہا ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس عذاب کو جدید جنگی اصولوں کے مطابق لڑنا ہوگا، یہ سیکڑوں افراد کا چند ہزار بیجوں کے ساتھ کسی بیابان میں جاکر ’شجر کاری، شجر کاری‘ کھیلنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، اور نہ ہی وزراء کے ہاتھ چند پودے لگانے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔

ہمیں محکمہءِ زراعت، جنگلات و باغات پر مبنی ایک ٹاسک فورس بنانی ہوگی، شہروں کے اطراف فالتو زمینیں ڈھونڈنی ہوں گی اور وہاں باقاعدہ ہل چلانے ہوں گے، جی ہاں ٹریکٹر کے ذریعے ہل چلانے ہوں گے اور انہی ٹریکٹروں کے ذریعے نیم، برگد، گلموہر، پیپل کی بجائی بھی کرنی ہوگی، اور شہری حکومتوں کو سختی سے پابند کرنا ہوگا کہ کھیتوں کے اسلوب پر استوار ان باغات نما جنگلات کی آبیاری کرتے رہیں، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ٹھوس انتظامات کرنے ہوں گے تب ہی جاکر ہم اس کے شدید اثرات کو کم کرسکتے ہیں۔

ہمیں درخت لگانے کے ساتھ ساتھ دھویں کے اخراج میں کمی کرنے کی بھی ضرورت ہے، زہریلے مادوں کو بھی صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہوگی، دریاؤں اور نہروں میں زہریلے مواد کو انڈیلنے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا تو اربوں روپے کا دفاعی بجٹ بھی کسی کام نہ آسکے گا، لوگ ہر سال گرمی، ضبخان (اسموگ) اور دیگر بیماریوں کے باعث مرتے رہیں گے اور یہ خطہ ایک بنجر قبرستان میں تبدیل ہوجائے گا۔

عندیل علی

لکھاری گلوبل شیپرز کمیونٹی کے کراچی حب کے کیوریٹر ہیں۔ آپ پچھلی ایک دہائی سے سماجی بہبود کے شعبے سے بطور معلم، مدرس، منتظم، محقق اور مبلغ منصوب ہیں۔ آپ کا مقصدِ حیات انسانی حقوق کی تبلیغ کے ذریعے قیامِ عالمی امن میں کردار ادا کرنا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Raja Akhlaq May 28, 2018 01:06pm
متفق. اس وقت اگر کسی چیز سے لڑنے کی سخت ضرورت ہے تو وہ ہے گلوبل وارمنگ اور اسکا صرف ایک حل درخت، اور درخت، مزید درخت
Syed M Nazim May 29, 2018 01:09am
There is collapse of administration in Sindh because of corruption and incompetence. Karacfhi problems can never be solved by Sindhi provincial government. Karachi and its environment could be saved to great extent if Karachi is made independent administrative unit with assembly. This will be better for the rest of Sindh.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024