• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

گلگت بلتستان میں ’نیو آرڈر‘ کالعدم قرار دینے تک مظاہروں کا اعلان

شائع May 26, 2018

گلگت بلتستان (جی بی) خطے کے 10 میں سے 9 اضلاع میں ہزاروں مظاہرین نے گلگت بلتستان آرڈ 2018 کے خلاف ریلی نکالی۔

مظاہرین نے جی بی آرڈر2018 کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیااور کہا کہ جی بی کے انصرام کو صدراتی حکامات کےذریعے چلانےکے بجائے پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان آڈر 2018: ‘نئے قانون سے جوڈیشل، سیاسی طاقت حاصل ہوگی’

واضح رہے کہ 22 مئی کو گلگت بلتستان حکومت نے 2009 سے نافذ جی بی امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آڈر منسوخ کرکے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان آڈر 2018 کی منظوری دی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مجلس وحدت المسلیمین، بلاوزیرستان نیشنل فرنٹ، عوامی ایکشن کمیٹی، ٹریڈ یونین سمیت سول سوسائٹی کے 2 ہزار ارکان نے اتحاد چوک پر جمع ہو کر وفاق اور صوبائی حکومتوں کے خلاف نعرے لگائے۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر محمد شافی خان نے احتجاجی مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ عوام کے وسیع تر مفاد کے خاطر اپوزیشن جماعت نے مذکورہ آرڈر کو کالعدم قرار دیا جانے تک احتجاج جاری رکھنےکا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی پارٹیاں کئی ماہ سے آرڈر سے اپنا احتجاج ریکارڈر پر لا رہی تھیں، متحدہ سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر دھرنا بھی دیا لیکن حکومت کے کسی نمائندے نے توجہ نہیں دی۔

مزید پڑھیں: گلگت- بلتستان کی حیثیت میں آئینی تبدیلی پر غور

محمد شافی خان کا کہنا تھا کہ آرڈر کے خلاف ناصرف اپوزیشن پارٹیاں بلکہ دیگر سیاسی، مذہبی تنظیمیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔

واضح رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے 27 مئی کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل کا دورے متوقع ہے۔

شافی خان نے کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے پاس دیگر ذرائع بھی ہیں، اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ، خطے میں ہڑتال کی کال اور وزیراعظم کے دورے کو بلیک ڈے کے طور پر منایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسلام آباد کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں ضم کیا جا سکتا ہے تو گلگت بلتستان کو یہ آئین حق کیوں نہیں دیا جا سکتا۔

دیگر مقررین میں جاوید حسین، ایڈوکیٹ شکیل احمد، نواز ناجی اور محمد سلطان رئیس شامل تھے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ اسکردو میں یادگار چوک پر احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں سیاسی ، مذہبی، ٹریٹ یونین اور طالبہ تنظمیوں کے تقریباً 3 ہزار افراد نے شرکت کی۔

یہ پڑھیں: گلگت بلتستان ٹیکس نفاذ کے معاملے پر بیک ڈور مذاکرات کی کوششیں تیز

اسی طرح بلتستان ڈویژن میں آرڈر کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور دھرنے منعقد ہوئے۔

دیامیر میں مظاہرین نے چیلاس میں ضلعی ہیڈکواٹر بلاک کردیا۔

چلتا بازار، اسیٹور اور گیزیر میں مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا۔


یہ خبر 26 مئی 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی

تبصرے (4) بند ہیں

Arshad Hussain Khan May 26, 2018 11:29am
یہ انسانی مزاج ہے، آپ جتنی آزادی دیتے جائیں گے۔ اتنا ہی انسان مزید آزادی کا خواہش مند ہوتا جائے گا۔ حالانکہ گلگت بلتستان کی اکثریت قومی و لسانی و مذہبی لحاظ سے ایک ہی ہیں۔ مگر پھر بھی ناخوش ہیں۔ یہ مسئلے جب ہی پیدا ہوتے ہیں جب وفاق کمزور ہوتا ہے۔ وفاق مضبوط ہو تو ون یونٹ میں بھی سب کچھ اچھا چلتا ہے۔ کمزور ہو تو گورنس سسٹم بھی بنادیں تو فائدہ نہ ہو۔
Ali May 26, 2018 01:31pm
اپوزیشن عوام کو دھوکا دے رہی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ علاقے کی قانونی حیثیت کیا ہے اصل ضرورت روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے ہیں
Azeem May 26, 2018 07:58pm
ارشد بھائی بڑے بے انصاف ہیں آپ، اگر فاٹا کو آئینی حثیت دیتے ہوئے صوبے کا حصہ بنایا جاسکتا ہے تو گلگت بلتستان کے عوام کو یہ آئینی حق کیوں نہیں دیاجارہا اور اس علاقے کو صدراتی احکامات کے چلانے پر کیوں اصرار کی جارہا ہے۔ کیا گلگت بلتستان کے عوام پاکستانی نہیں۔ کیا انہیں حق حاصل نہیں ہے کہ دیگر صوبوں کی طرح اپنے صوبے کا خود انتظام چلائيں۔ کیا انہیں انتی ہی آزادی ہے جنتی دیگر صوبوں کے عوام ہے حاصل ہے۔
Najeeb May 27, 2018 02:05am
@Arshad Hussain Khan you r so I’ll informed about GB. They r not ethnically same. Their are 5 district languages spoken in the region. That is the only region in Pakistan who can’t vote for senate and National Assembly. No representation in NFC award or Indus water( though Indus comes from the mountains of GB).

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024