79 ماہ میں ہزارہ برداری کے 3 ہزار افراد قتل ہوئے
اسلام آباد: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11 ستمبر 2011 کے بعد سے اب تک ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے 3 ہزار سے زائد افراد قتل ہوئے۔
ادھر غیر سرکاری ذرائع نے ہلاک شدگان کی تعداد 4 ہزار بتائی ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ تمام جاں بحق ہونے والے افراد مرد تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ہزارہ برادری کا قتل عام بند کرائے: ہیومن رائٹس واچ
وکیل اور سماجی کارکن جلیلا حیدر نے سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آگاہ کیا کہ ہزارہ برداری کے 10 ہزار خواتین اور بچوں کی محدود آزادیِ اظہار اور نقل و حرکت کے باعث زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ ہزارہ برداری کے افراد کی قتل و غارت کے معاملے پر سنجیدہ رویہ اختیار کریں۔
جلیلا حیدر نے بتایا کہ ‘90 ہزار سے زائد ہزارہ برداری پر مشتمل خاندان ملک کے دوسرے حصہ میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مشکل ترین زندگی گزار رہے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے الزام لگایا کہ بلوچستان حکومت نے ہزارہ برداری کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔
مزید پڑھیں: امن پسند ہزارہ نے ہتھیار اُٹھالیے
ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک میں قانون کی پاسداری نہیں رہی، ہم سےغلط بیانی کی گئی، ہزارہ خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور بچوں کی زندگی کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہے’۔
سماجی کارکن نے بتایا کہ ‘ہزارہ برادری کے افراد بیگار کیمپ جیسی زندگی گزار رہے ہیں’۔
کمیٹی ممبر اور حکومتی عہدیدار جلیلا حیدر کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے جبکہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) جہانزیب جنگوزئی نے کمیٹی کے سامنے جلیلا حیدر کی باتوں کی تائید کی۔
اے آئی جی کا کہنا تھا کہ ‘ہزارہ برداری کے لوگ خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں تاہم ہم ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرر ہے ہیں’۔
یہ پڑھیں: کوئٹہ: فائرنگ سے ہزارہ برادری کے افراد سمیت 5 جاں بحق
فرنٹیئر کور (ایف سی) کے لفٹیننٹ کرنل بلال حیدر نے کمیٹی کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز فرقہ پرستی پر مشتمل فیتھ جنریشن کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘ایف سی ہزارہ برادری کی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدامات بروکار لارہی ہے، سرحدوں پر مزید اہلکاروں کو تعینات کیا جا چکا ہے تاکہ ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگیٹ کلنگ روکی جا سکے، ہزارہ برادری پر حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ 2012 کے بعد ہوا۔
یہ خبر 24 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں