500 ڈالر کی خرید و فروخت پر شناختی کارڈ دکھانا ضروری، اسٹیٹ بینک
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے منی ایکسچینج کمپنیز کی مدد سے بین الاقوامی کرنسی کی خرید و فروخت کے دوران اس کی قیمت 500 ڈالر سے زائد ہونے کی صورت میں اصلی کمپیوٹرآئزڈ شناختی کارڈ لازمی قرار دے دیا۔
مرکزی بینک کی جانب سے مذکورہ فیصلہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کا نام نام-نہاد ’گرے لسٹ‘ میں ڈالنے اور اس حوالے سے بین الاقوامی دباؤ کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
قبلِ ازیں ڈھائی ہزار ڈالر تک کی بین الاقوامی کرنسی کی خروید و فروخت بغیر کسی پہچان یا پھر قومی شناختی کارڈ دکھائے بغیر کرنے کی اجازت تھی۔
اس ضمن میں پاکستانی شہری کے قومی شناختی، قومی شناختی کارڈ برائے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی یا پھر پاکستان نژاد غیر ملکی کارڈ اور پاسپورٹ دکھانا لازمی تھا۔
مزید پڑھیں: ٹیکس دہندگان اپنے اکاؤنٹ میں ڈالر جمع کراسکتے ہیں، اسٹیٹ بینک
اس فیصلے سے منی ایکسچیج کمپنیوں کو شدید دھچکا لگا جو مرکزی بینک کو ڈالر کی خریداری کے حوالے سے فیصلے کو بدلنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں۔
منی ایکسچیج کمپنیوں کی جانب سے کہا گیا کہ اس فیصلے سے زرِ مبادلہ کی شرح میں تبدیلی کا امکان ہے۔
تاہم اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا ہے جس میں مذکورہ فیصلے کی وجہ سامنے آنے والے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان فوریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں، جس کے لیے ہم سب کچھ کر سکتے ہیں، تاہم ہماری درخواست ہے کہ مرکزی بینک شناختی کارڈ لازمی قرار دینے کے اپنے فیصلے پر ہمارے تحفظات کو سنے اور انہیں دور کرے۔
یہ بھی پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی سے متعلق حکومتی فیصلہ کتنا ٹھیک؟ کتنا غلط؟
مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ انہیں بین الاقوامی کرنسی کی خرید و فروخت کو اسی طرح جاری رکھنے کی ہدایت کی جائے جیسا کہ یہ پابندی سے پہلے جاری رہتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹ میں بین الاقوامی کرنسی کو خریدنے والے انفرادی شخص پر اپنی پہچان بتانے کی پابندی ہونی چاہیے۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ان کا اسٹیٹ بینک کی عمارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا ہے تاہم امید ہے کہ ہم اس مسئلے کا بہتر حل نکال لیں گے۔
منی ایکسچینج کمپنی نے امکان ظاہر کیا ہے کہ حکومتی پابندی کی وجہ غیر قانونی کرنسی ٹریڈرز کی جانب سے فروخت کنندہ متوجہ ہوگا اور یوں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ خبر 23 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی