• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ ملتوی

شائع May 17, 2018

اسلام آباد: پارلیمنٹ میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا معاملہ گزشتہ ایک برس سے زیر بحث ہے تاہم اس متنازع عمل کو آئندہ بننے والی حکومت کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ فیصلہ آئندہ انتخابات کے تناظر میں اپنی 2 اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کی مخالفت سے بچنے کے لیے کیا۔

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور پی کے میپ کے صدر محمود خان اچکزئی نے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے قبائلی عوام کی امنگوں کے خلاف قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’2019 میں فاٹا، خیبرپختونخوا کا حصہ ہوگا‘

جبکہ اپوزیشن کی 2 بڑی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اس انضمام کے حق میں تھیں۔

اس حوالے سے قومی اسمبلی کے متعدد اجلاس ہوئے جن میں وزیر مملکت برائے سرحدی امور (سیفرون) لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ایوان کو بتایا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے معاملات آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کے لیے چھوڑ دیئے گئے ہیں تاہم اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہیں کی جارہی اورفی الوقت فاٹا کی موجودہ حیثیت ہی برقرار رہے گی۔

اس ضمن میں ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس انضمام کو عملی جامہ پہنا بھی دیا جاتا ہے تو موجودہ حکومت کی مدت (31 مئی تک) کے پیش نظر یہ فیصلہ خیبرپختونخوا کے لیے پیچیدگیوں کا باعث بن جائے گا کیوں کہ پھر محض 15 دن کے اندر خیبرپختونخوا کی حکومت کو صوبائی اسمبلی میں فاٹا کی سیٹوں کے لیے حلقہ بندیاں کرنی پڑتیں جو اتنے مختصر عرصے میں ناممکن تھا۔

مزید پڑھیں : فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی مد میں فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ صوبائی حکومت میں فاٹا کو ضم کرنے کے لیے خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے بھی قانون متعارف کروایا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس وقت فاٹا کی قومی اسمبلی میں 12 نشستیں ہیں، جو ملک کی آبادی کے حساب سے اور دیگر علاقوں میں مختص نسشتوں سے دو گنا ہیں۔

اس حوالے سے وزیر مملک کا مزید کہنا تھا قانون کے تحت خیبرپختونخوا میں فاٹا کی نشستوں پر انتخابات ممکنہ طورپر اگلے سال کرائیں جائے گے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عوام کی خواہشات کے برعکس فاٹا کا انضمام نہیں ہونے دیں گے‘

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ضم کرنے کا فیصلہ دراصل غیر ملکی ایجنڈا ہے کیوں کہ مجھے اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے اس حوالے سے بتایا تھا کہ فاٹا اصلاحات اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات کا یہ معاملہ وزارت سیفرون کے تحت آتا ہے لیکن اسے وزارت قانون و انصاف کے حوالے کیا گیا۔

ظفراللہ جمالی مستعفی

قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں سب سے چونکا دینے والی خبر جو سامنے آئی، وہ تھی سابق وزیر اعظم ظفراللہ جمالی کا قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونا۔

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد سے تعلق رکھنے والے ظفراللہ خان جمالی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم نیب کے چیئرمین کی کارکردگی سے ناخوش ہیں تو انہیں سب سے پہلے استعفی دے دینا چاہیے کیوں کہ نیب چیئرمین کا تقرران دونوں عہدوں سے مشاورت کے بعد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بجٹ میں بلوچستان کے لیے ناکافی وسائل مختص کیے جانے پر وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

واضح رہے کہ ظفراللہ خان جمالی سابق صدر جنرل پرویز مشرف دور میں پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور موجودہ حیثیت میں مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہیں۔

اجلاس کے دوران حزب اختلاف کی روایت کے برعکس پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسمبلی کے اراکین نے بجٹ پر تحریک التوا نہ جمع کرانے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھیں؛ فاٹا کا انضمام اور اس کی پیچیدگیاں

تاہم اپوزیشن کا موقف دہراتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت کی مدت چند ہفتے کی رہ گئی ہے ایسے میں وفاقی حکومت کا نئے مالی سال کے لیے مکمل بجٹ پیش کرنا ناقابل قبول ہے۔

اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے اسپیکر کی توجہ نامکمل کورم کی جانب مبذول کرائی جس کے بعد اجلاس جمعرات تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 17 مئی 2018 کو شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024