• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نقیب اللہ قتل کیس: پولیس کی جانب سے نامزد گواہ منحرف ہوگیا

شائع May 14, 2018

کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد گواہ نے اپنے بیان سے انحراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کی جانب سے ڈرا دھمکا کر بیان ریکارڈ کیا گیا۔

شہر قائد کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، تاہم سماعت سے قبل مقدمے نے نیا رخ اختیار کرلیا اور پولیس کی جانب سے نامزد کیے گئے گواہ نے اپنے بیان سے انحراف کرتے ہوئے اوتھ کمشنر کے روبرو بیان حلفی لکھوا دیا۔

پولیس کی جانب سے نامزد گواہ شہزادہ جہانگیر نے اپنے بیان حلفی میں عدالت سے تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ 13 جنوری کو جب واقعہ پیش آیا تو ان کی اس وقت پوسٹنگ میمن گوٹھ میں تھی، واقعے کے بعد انہیں 17 فروری کو ایس پی آفس بلایا گیا، جب وہ 18 فروری کو ایس پی آفس پہنچے تو انہیں گرفتار کرکے 7 سے 8 دن بعد ڈرا دھمکا کر راو انوار کے خلاف بیان دلوایا گیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار نے ضمانت کیلئے درخواست دائر کردی

منحرف گواہ نے کہا کہ پولیس نے ان پر تشدد کرکے اپنی مرضی سے بیان ریکارڈ کروایا جبکہ ان کی جان کو اب خطرہ ہے، عدالت ان کی حفاظت کا بندوبست کرے۔

راؤ انوار کی عدالت میں پیشی

منحرف گواہ کے بیان کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ کیس کی سماعت کے آغاز پر گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر کو پیش کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ پیشی پر جرگہ عمائیدین کے اعتراض کے باوجود سابق ایس ایس پی کو آج بھی مکمل پروٹوکول میں بغیر ہتکڑی پہنائے پیش کیا گیا۔

دوران سماعت عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہونے والے گواہ شہزادہ جہانگیر کا بیان پڑھ کر سنایا گیا، اس کے ساتھ ساتھ عدالت مقدمہ کے مدعی کی جانب سے راؤ انوار کو ملیر کینٹ میں واقع ملتان لائنز میں رکھنے پر اعتراض جمع کرائے گئے جبکہ عدالت نے ملزم راؤ انور کی جانب سے دائر درخواست ضمانت اور بی کلاس کی درخواست کی نقول فراہم کیں۔

بعد ازاں عدالت میں کیس کے دیگر ملزمان نے مقدمے کی نقول نامکمل ہونے کی نشاندہی بھی کی، جس پر عدالت نے مزید کارروائی 19 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ملزمان کے وکلا کو مکمل دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب اس بات کا بھی امکان ہے کہ آئندہ سماعت پر نقیب اللہ کیس کے ملزمان پر فرد جرم بھی عائد کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل: ’بادی النظر میں پولیس مقابلہ منصوبے کے تحت کیا گیا‘

خیال رہے کہ 12 مئی کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں دائر کردہ درخواست ضمانت میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 13 جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن میں ہونے والے پولیس مقابلے کے دوران راؤ انوار جائے وقوع پر موجود نہیں تھے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نقیب اللہ کیس کے چالان اور مشترکہ تحقیقات ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات اور جیو فینسنگ میں تضاد ہے، لہٰذا راؤ انوار کی ضمانت منظور کی جائے۔

نقیب اللہ قتل کیس

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھنے پر 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار اور دیگر کے خلاف عبوری چالان عدالت میں جمع

بعد ازاں چیف جسٹس کے حکم پر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈال دیا گیا تھا، جبکہ انہیں اسلام آباد سے سخت سیکیورٹی میں کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انہیں پیش کیا گیا تھا، جہاں انہیں ایک ماہ کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو سینٹرل جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم عدالتی احکامات کے برخلاف ملیر کینٹ میں راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024