• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

نقیب اللہ کیس: راؤ انوار نے ضمانت کیلئے درخواست دائر کردی

شائع May 12, 2018

کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے ضمانت کے لیے درخواست دائر کردی۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں دائر کردہ درخواست ضمانت میں موقف اختیار کیا گیا کہ 13 جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن میں ہونے والے پولیس مقابلے کے دوران راؤ انوار جائے وقوع پر موجود نہیں تھے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نقیب اللہ کیس کے چالان اور مشترکہ تحقیقات ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات اور جیو فینسنگ میں تضاد ہے، لہٰذا راؤ انوار کی ضمانت منظور کی جائے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل: ’بادی النظر میں پولیس مقابلہ منصوبے کے تحت کیا گیا‘

سابق ایس ایس پی ملیر کی درخواست ضمانت پر عدالت نے 14 مئی کے لیے سرکاری وکیل کو نوٹس جاری کردیا، نقیب اللہ کیس کی سماعت بھی اسی روز ہوگی۔

گزشتہ روز پولیس نے کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں راؤ انوار اور دیگر ملزمان کے خلاف عبوری چالان جمع کرایا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے راؤ انوار اور دیگر ملزمان کے خلاف یہ چالان نقیب اللہ محسود اور 3 متاثرین پر غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد سے متعلق بنائے گئے مقدمے میں جمع کرایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، سابق ڈی ایس پی قمر احمد شیخ اور دیگر 10 مفرور ملزمان پر نقیب اللہ محسود اور دیگر 3 افراد کے قتل کے بعد ان پر غیر قانونی اسلحہ اور دستی بم کا جعلی کیس پر بنانے پر دوسرا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھنے پر 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار اور دیگر کے خلاف عبوری چالان عدالت میں جمع

بعد ازاں چیف جسٹس کے حکم پر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈال دیا گیا تھا، جبکہ انہیں اسلام آباد سے سخت سیکیورٹی میں کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انہیں پیش کیا گیا تھا، جہاں انہیں ایک ماہ کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو سینٹرل جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم عدالتی احکامات کے برخلاف ملیر کینٹ میں راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024