پائلٹس جعلی ڈگری کیس: ایئربلیو پر50ہزار شاہین ایئر پر ایک لاکھ روپے جرمانہ
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملے میں تاخیر پر نجی ایئرلائن ایئر بلیو کو 50 ہزار جبکہ شاہین ایئرلائن پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایئرلائنز میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے معاملے پر کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران ایم ڈی ایئربلیو جنید خان، چیف ایگزیکٹو پی آئی اے اور شاہین ایئر کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے آپ کے پاس کتنے پائلٹس ہیں؟ جس پر ایم ڈی ایئر بلیو نے بتایا کہ ہمارے پاس 101 پائلٹس ہیں اور 251 کا عملہ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایئربلیو کا چیف ایگزیکٹو کون ہے؟ اس پر ایم ڈی ایئربلیو نے کہا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو طلب کرنے سے متعلق بریکنگ نیوز چل رہی تھی؟
مزید پڑھیں: ’چیف جسٹس دیگر اداروں سے قبل عدلیہ میں اصلاحات کریں‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سیاسی آدمی ہیں، سیاسی لوگوں کی بریکنگ چلتی رہتی ہے، ہم نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو طلب نہیں کیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملے میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب تک پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق کیوں نہیں ہوئی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ایئربلیو کو 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی قسم کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو ایم ڈی جنید خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔
عدالت میں مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران شاہین ایئر لائن کا معاملہ بھی زیر غور آیا، اس دوران شاہین ایئر کے چیف ایگزیکٹو عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت میں پیشی پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق ہوچکی ہے؟ اس پر احسان صہبائی نے بتایا کہ ڈگریوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ جس پر نمائندہ سول ایوی ایشن نے کہا کہ احسان صہبانی کا تعلق کینیڈا سے ہے اور وہ دہری شہریت رکھتے ہیں؟
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ دہری شہریت رکھتے ہیں اور ہمارے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کر رہے، اس دوران چیف جسٹس احسان صہبائی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے اسے فاؤنڈیشن میں جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوران سماعت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
عدالت میں موجود چیف ایگزیکٹو مشرف رسول سیال سے استفسار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ پی آئی اے ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی؟ شرم کریں کیا آپ کو تنخواہ مل گئی؟ آپ کی تنخواہ 20 لاکھ سے زیادہ ہوگی لیکن آپ غریبوں کو کیوں تنخواہ نہیں دیتے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی آئی اے کی کارکردگی رپورٹ عدالت میں پیش کریں اور بتائیں کہ پی آئی اے کے پاس کتنے پائلٹس ہیں، اس پر مشرف رسول نے بتایا کہ ہمارے پاس 32 ایئر کرافٹ اور 498 پائلٹس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 369 پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق ہوچکی، 39 پائلٹس نے ڈگریوں سے متعلق حکم امتناع لے رکھا ہے، اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ آج شام تک اس حوالے سے حتمی رپورٹ پیش کریں۔
چیف جسٹس نے سانحہ 12 مئی کیس کی فائل طلب کرلی
اس سے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سانحہ 12 مئی سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اور دیگر حکام کو اس مقدمے کی فائل پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف کیسز کی سماعت سے قبل سانحہ 12 مئی کا معاملہ زیر غور آیا۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سانحہ 12 مئی کو المناک واقعہ ہوا، 11 برس گزرنے کے باوجود ملزمان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس واقعہ پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، سانحہ 12 مئی کے شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کرنی چاہیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کیا 12 مئی کے واقعے کی تحقیقات نہیں ہوئیں؟ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہا کہ آپ کیس کا نمبر دیں ہم جائزہ لیں گے، بعد ازاں چیف جسٹس نے سانحہ 12 مئی کے مقدمے میں ہونے والی پیش رفت اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس کی آمد پر سپریم کورٹ کے باہر متاثرین سراپا احتجاج
اس سے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری آمد کے موقع پر متاثرین کی ایک بڑی تعداد نے احتجاج کیا اور چیف جسٹس کی گاڑی روکنے کی کوشش کی۔
ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر بحریہ ٹاؤن متاثرین، لاپتہ افراد کے اہل خانہ، دادو کے متاثرہ خاندان ، ٹیچنگ اسٹاف اور مختلف متاثرہ افراد کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں، چیف جسٹس
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جس پر ’آئی لوو بحریہ ٹاؤن‘، ’لگام دو لگام دو محمود اختر نقوی کو لگام دو‘ اور ‘چیف جسٹس ہی واحد امید ہیں‘ کے نعرے درج تھے۔
احتجاج کے دوران چیف جسٹس کی گاڑی جب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے قریب پہنچی تو سندھ کے ضلع دادو کے علاقے میہڑ کے متاثرہ خاندان کی ایک خاتون نے چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے آنے کی کوشش کی، جسے خاتون پولیس اہلکار نے ناکام بنا دیا۔
متاثرہ خاتون نے الزام لگایا کہ رکن صوبائی اسمبلی نے ان کے گھر میں داخل ہو کر ان کا ریپ کیا اور ان کے خاندان کے 3 افراد کو قتل کیا جبکہ اس معاملے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن سندھ ہائی کورٹ نے اپیل خارج کردی۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اپیل خارج کرنے پر متاثرہ خاندان کے افراد نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔