کسی کو بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین سازی کے عمل کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں اور کسی کو بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
آٹھویں جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ ریاست کا تیسرا بڑا ستون ہے اور عوامی حقوق کے تحفظ کی ذمے داری ہماری ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین سازی کے عمل کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ تمام جج اپنے حلف سے کبھی بے وفائی نہیں کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی عدلیہ کی ذمےداری ہے، کسی کو بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ قرآن کے بعد آئین کی کتاب مقدس ہے اور عدلیہ آئین پاکستان کی محافظ ہے اور انصاف کی فراہمی عدلیہ کی بنیادی ذمےداری ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس آئین ہے، قانون کی حکمرانی سے معاشرے کامیابیاں حاصل کرتے ہیں،آئین کا ابتدائیہ کہتا ہے کہ ملک منتخب نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے گا اور یہی آئین کی کمانڈ ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ جس جاں فشانی کے ساتھ اس وقت عدلیہ کام رہی ہے جس کی وجہ سے کوئی پاکستان کے لوگوں کے حقوق میں مداخلت کرنے یا ان کے حقوق سلب کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام کے حقوق کا تحفظ ازخود نوٹس یا تحریری درخواست کے ذریعے ہوتا ہے۔
جوڈیشل کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں عمل درآمد نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے،آج تک ہونے والی جوڈیشل کانفرنسز کی سفارشات پر عمل نہیں ہوا، کئی گھنٹوں کی محنت سے آج بھی سفارشات تیار کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات پرعمل درآمد کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا۔
جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں ججوں پر مشتمل کمیٹی ان سفارشات پر چار ماہ میں عمل درآمد یقینی بنائے گی، کمیٹی میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر شامل ہیں۔
آٹھویں جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات
اسلام آباد میں منعقدہ دو روزہ جوڈیشل کانفرنس کی صدارت چیف جسٹس و چیئرمین قانون و انصاف کمیشن آف پاکستان نے کی۔
دو روزہ کانفرنس میں ملکی و غیرملکی محققین، ججز، وکلا اور ماہرین نے شرکت کی۔
تمام گروپوں کے چیئرپرسنز نے اختتامی سیشن میں اپنی اپنی سفارشات پیش کیں جس کو منظور کر لیا گیا اور اس کو اعلامیہ اسلام آباد2018 کانام دیا گیا۔
کانفرنس میں درج ذیل سفارشات پیش کی گئیں:
گروپ ون کی جانب سے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت علاقائی، معاشی استحکام اور مسائل کے حل کے لیے موثر طریقہ کار پر6 مختلف سفارشات پیش کی گئیں۔
گروپ ٹو نے مسائل کے متبادل حل کے طریقہ کار اور ان سے بچنے کے حوالے سے مختلف اقدامات تجویز کیے۔
گروپ تھری کی سفارشات میں زیرالتوا مقدمات کو فوری نمٹانے اور التوا کے خاتمے کے طریقہ کار پرمشتمل تھیں۔
گروپ فور کی جانب سے تعلیم اور پاکستان کے تعلیمی میدان میں جوڈیشل افسران کے یکساں انتخاب کے طریقہ کار کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئیں۔
گروپ فائیو کی جانب سے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے کریمنل جسٹس سسٹم کے ساتھ تعلق پر مفصل سفارشات دی گئیں۔