ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف عوامی عہدہ رکھتے ہوئے مالک تھے، تفتیشی افسر
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں دائر ایون فیلڈ ریفرنس میں تفتیشی افسر نے اپنا بیان قلم بند کرواتے ہوئے کہا کہ نواز شریف عوامی عہدے پر ہوتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے اپنا بیان قلم بند کروایا۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف عوامی عہدہ رکھتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے اور انھوں نے نیلسن اور نیسکول لیمٹڈ کے ذریعے بے نامی دار کے نام پر فلیٹس خریدے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان لندن جائیداد خریدے جانے کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے جبکہ لندن فلٹیس 1993 سے نواز شریف اور دیگر نامزد ملزمان کی تحویل میں ہیں۔
عمران ڈوگر نے کہا کہ مریم نواز نے جن ٹرسٹ ڈیڈز کو اصل قرار دے کر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں جمع کرایا تھا وہ جعلی ثابت ہوئیں۔
مزید پڑھیں:ایون فیلڈ ریفرنس: پاناما جے آئی ٹی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ
اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ مریم، حسن اور حسین نواز بے نامی دار ہوتے ہوئے جرم کے ارتکاب میں نواز شریف کے مدد گار رہے اور تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث پائے گئے۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز نیب آرڈیننس 1999کے تحت قابل گرفت جرم ہے جبکہ ملزمان کو دو بار طلبی کے نوٹس بھجوائے گئے پھر بھی وہ پیش نہیں ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ملزمان کو نیب کی جانب سے پہلا نوٹس 18اگست 2017 اور دوسرا نوٹس 28 دسمبر 2017 کو بھیجا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کے ولا امجد پرویز اور خواجہ حارث کا خط 22 اگست کو موصول ہوا تھا، 30 دسمبر 2017 کو مریم نواز اور کیپیٹن صفدر کی طرف سے ایڈووکیٹ نذیر احمد بھٹہ کا خط موصول ہوا۔
اس موقع پر تفتیشی کی طرف سے خط پیش کیے جانے پر خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اتنا پرانا خط پہلے ریکارڈ پر کیوں نہیں لایا گیا۔
خیال رہے کہ تفتیشی افسر کی جانب سے احتساب عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات میں اکثر وہی ہیں جس کو پاناما کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے گزشتہ برس سپریم کورٹ میں جمع کرادی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف ان کے بچوں اور سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کو حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس بھی دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ کے دوسرے بنچ نے خارج کردیا تھا۔