• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ایمپریس مارکیٹ کو کیوں چھپا دیا گیا؟

شائع May 8, 2018
لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔
لکھاری آرکیٹیکٹ ہیں۔

تقسیم سے پہلے کراچی کے ناظمین اور کالونیل انتظامیہ نے ہمارے اداروں کی خوبصورت اور بے مثال عمارتوں کو سڑکوں کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا۔ نتیجتاً آلودگی کی دبیز تہہ میں چھپ جانے سے پہلے وہ دور سے ہی نظر آجایا کرتیں تھیں جس سے وہ شہری منظرنامے کا ایک لازمی حصہ بن جاتیں۔

چنانچہ سینٹ پیٹرکس کتھیڈرل اور کرائسٹ دی کنگ یادگار شاہراہِ عراق (سابقہ کلارک اسٹریٹ) کے ایک جانب اور ہائی کورٹ کا مشرقی رخ ایک جانب ہے۔

ہائی کورٹ کا مغربی رخ اس سڑک پر ہے جسے اب شاہراہِ کمال اتاترک کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایڈلجی ڈنشا ڈسپنسری راجہ غضنفر علی روڈ (سابقہ سومرسٹ اسٹریٹ) پر واقع ہے اور سرور شہید روڈ (سابقہ ڈپو روڈ) پر اپنے انٹرسیکشن سے ہی نظر آتی ہے۔ میری ویدر ٹاور نیپیئر مول روڈ کے ساتھ قائم ہے اور اس طرح کئی دیگر مثالیں موجود ہیں۔

بانیانِ پاکستان نے بھی اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے قائدِاعظم کے مزار کی جگہ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اسے بندر روڈ اور بندر روڈ ایکسٹینشن پر قائم کیا۔ ان سڑکوں کو بعد میں ان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

ایم اے جناح روڈ پر اس سال کے آغاز میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) کا سڑک سے بلند سیکشن تجویز کیا گیا تھا۔ جب کچھ شہریوں نے توجہ دلائی کہ بی آر ٹی کا یہ سیکشن ایم اے جناح روڈ سے مزار کے نظارے کو ناممکن بنا دے گا تو وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے حکم دیا کہ بی آر ٹی کا یہ سیکشن زیرِ زمین کردیا جائے تاکہ مزار کا تقدس محفوظ رہے اور شہر کی سب سے اہم یادگار عوام کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے۔

کالونیل دور کی عمارتوں میں سے ایمپریس مارکیٹ بلاشبہ سب سے اہم ہے، نہ صرف اپنے طرزِ تعمیر کی وجہ سے، بلکہ اس لیے بھی کہ اس کے اندر اور آس پاس موجود بازاروں میں شہر کے تمام طبقات آتے ہیں جو کہ ایک نایاب بات ہے۔

اس کے علاوہ یہ اسی میدان پر قائم ہے جہاں برطانویوں نے 1857ء میں برٹش راج کے خلاف بغاوت کرنے والے جنگجوانِ آزادی کو توپوں سے باندھ کر اڑا دیا تھا، جبکہ ان کے حامیوں کو یا تو پھانسی دے دی گئی یا پھر جزائرِ انڈیمان (کالا پانی) بھیج دیا گیا تاکہ وہ بھوک اور بیماریوں سے مرجائیں۔ ملک بدر کیے جانے والوں میں سے کئی کا تعلق چنیسر گوٹھ سے تھا۔ اچھا ہوگا کہ مارکیٹ کے احاطے میں ان افراد کی یاد میں ایک چھوٹی سی یادگار تعمیر کردی جائے۔

ایمپریس مارکیٹ میر کرم علی تالپور روڈ کے ساتھ قائم ہے اور 2 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور لکی اسٹار کے علاقے سے نظر آتی تھی۔ مگر اب اس کے ساتھ اور بالکل کرم علی تالپور روڈ کے بیچ میں فوڈ اسٹریٹ کو جگہ دینے کے لیے ایک بڑا شیڈ تعمیر کردیا گیا ہے۔ شیڈ نے مارکیٹ کی اس خوبصورت عمارت کے نظارے کو پوری سڑک سے چھین لیا ہے۔ فوڈ اسٹریٹ کا تصور اچھا ہے مگر یہ اس اہم عمارت کو عوامی نظروں سے چھپائے بغیر بھی کیا جاسکتا تھا جس کو عموماً شہر کی نمائندہ تصاویر میں پیش کیا جاتا ہے۔

وہ لوگ جو اس حوالے سے حساس ہیں اور جن میں صدر کے دکاندار اور ٹرانسپورٹر بھی شامل ہیں، ان کے نزدیک جو ایمپریس مارکیٹ کے ساتھ ہوا ہے وہ صدمہ انگیز ہے۔ یہ، اور ایم اے جناح روڈ پر سڑک سے بلند بی آر ٹی کا پورا بکھیڑا، اور کراچی پر تھوپے گئے کئی ماحول دشمن فیصلوں سے بچا جاسکتا تھا اگر حکومت اپنے منصوبے عوام کے ساتھ بھی شیئر کرتی۔

حکومت کو اس وقت یہ اہم کام کرنے چاہیئں:

  1. ایمپریس مارکیٹ کے سامنے تعمیر کیا گیا اسٹرکچر گرا دیا جائے اور فوڈ اسٹریٹ دوبارہ ڈیزائن کی جائے تاکہ مارکیٹ کی عمارت پوشیدہ نہ رہے۔
  2. ٹھوس فیصلہ کیا جائے کہ مستقبل میں کوئی ایسی تعمیرات نہیں کی جائے گی جو کسی تاریخی ورثے کو عوامی نظروں سے چھپا دیں۔
  3. وہ سڑکیں جن پر ورثہ قرار دی گئی یا پھر غیر معمولی عمارتیں قائم ہوں، انہیں اس انداز میں تعمیر کیا جائے کہ ان عمارتوں کا نظارہ بہتر اور ان کی اہمیت اجاگر ہوسکے۔
  4. مستقبل میں تمام تعمیراتی منصوبوں کو ان کے تصوراتی مرحلے میں ہی کسی عوامی مقام پر خاکوں اور تھری ڈی تصاویر کی صورت میں کم از کم 30 دن کے لیے نمایاں کیا جائے تاکہ شہری اس پر اپنی رائے دے سکیں۔ سول سوسائٹی، یونیورسٹیوں، پروفیشنل اور سرکاری اداروں سے نمائندگان پھر شہر اور شہریوں کے وسیع تر مفادات میں اس پر فیصلہ کرسکتے ہیں۔

حکومت کو شروعات ان منصوبوں کے ماڈلز اور تصاویر کی نمائش کے ذریعے کرنی چاہیے جو کہ ورلڈ بینک کے اس پراجیکٹ کے لیے بنائے گئے ہیں جس کے لیے 80 ملین ڈالر کا قرضہ بھی بینک سے لیا گیا ہے۔ 2016ء کے وسط میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ میٹنگز میں بینک نمائندگان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے تمام منصوبے سول سوسائٹی تنظیموں اور پراجیکٹس کے علاقے میں موجود رہائشیوں اور تاجروں سے شیئر کریں گے۔

نہ صرف یہ کہ کوئی منصوبہ اب تک شیئر نہیں کیا گیا بلکہ اس مقصد کے لیے اب تک کوئی رابطہ بھی قائم نہیں کیا گیا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

عارف حسن

لکھاری آرکیٹکٹ ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔ ان کی ویب سائٹ وزٹ کریں: www.arifhasan.org

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری May 08, 2018 06:31pm
عارف حسن صاحب کی آرا قابل غور ہیں۔ ان جیسے لوگوں کو شہر کے بارے میں فیصلہ کرنے والی کمیٹیوں میں ضرور ہونا چاہیے۔ شہر کے بارے میں فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ہیں اسی سے کوئی شہر پیرس بنتا ہے اور کوئی ایمسٹرڈیم۔
میثاق زیدی May 09, 2018 09:19am
گزارش ہے کہ ہمارے پاکستان کے عوام کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ ان سے کسی بھی موضوع پر رائے لی جائے ۔ یہاں فیوڈل کلچر ہے ۔ عوام بھیڑیں اور بکریاں ہیں ۔
س ز May 09, 2018 10:34am
عارف حسن صاحب کی یہ سب تجاویز اور توجہات بہت اہم ہیں. ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس سوچنے والے سیاستدان ناپید ہیں اور حد یہ ہے کہ انجینئرز اور اربن پلانرز بھی صحیح سمت میں سوچنے کے بجاۓ "Soul-less" کمرشلزم کا شکار ہیں.... ضرورت اس بات کی ہے کہ "پالیسی-میکنگ ایمرجنسی" لگا کر شہر کی شکل درست کی جاۓ. ورنہ کراچی کا تاریخی و ثقافتی ورثہ مٹ جاۓ گا، اور صرف کنکریٹ کا ایک بے ہنگم، "بے روح" (بلکہ "بدروح" بہتر لفظ ہے) جنگل ہی باقی رہے گا....

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024