نائیجیریا: مسجد، مارکیٹ میں خود کش دھماکوں سے 60 افراد ہلاک
نائجیریا کے شمال مشرقی علاقے میں ایک مسجد اور مارکیٹ میں دو خود کش دھماکوں کے نتیجے میں 60 سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ریاست ایداماوا کے پولیس ترجمان عثمان ابوبکر کا کہنا تھا کہ 'تاحال ہلاکتوں کی تعداد 24 ہوگئی ہے' جبکہ دیگر ذرائع ہلاکتوں کی تعداد کو کئی گنا زیادہ بتا رہے ہیں۔
نائیجیریا کے شمال مشرقی علاقے میں پہلا خود کش دھماکا ریاستی دارالحکومت یولا سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر موبی میں ہوا۔
امدادی کارکن ثانی کاکیلا کا کہنا تھا کہ ‘میری موجودگی میں 42 لاشوں اور 68 زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے’۔
اے ایف پی کے مطابق موبی جنرل ہسپتال کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘اب تک 37 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمیوں کو لایا گیا ہے جن میں سے اکثر کی حالت تشویش ناک ہے’۔
یہ بھی پڑھیں:نائیجیریا: نو عمر خودکش بمبار لڑکیوں کا حملہ
محمد حمیدو کا کہنا تھا کہ'قبرستان سے واپسی سے قبل 68 افراد کی تدفین میں حصہ لیا تھا جبکہ متاثرہ خاندانوں کی جانب سے مزید لاشوں کو لایا جارہا تھا'۔
ایک اور امدادی کارکن عبدالہٰی لیبران کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں موبی اب تک سب سے بدترین حملہ تھا اور انسانی جانوں کا ضیا ناقابل تصور تھا'۔
انھوں ںے کہا کہ 'ہم نے 73 نئی قبریں کھودی تھیں جہاں جاں بحق افراد کو دفنا دیا گیا جبکہ ہسپتالوں میں اب بھی کئی لاشیں موجود ہیں'.
خود کش دھماکوں کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی تاہم شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس واقعے میں دہشت گرد تنظیم بوکوحرام ملوث ہو سکتی ہے جو نائیجیریا کے شمال مشرقی علاقے میں فعال ہے اور 2009 سے اب تک مختلف واقعات میں 20 ہزار کے قریب افراد کو نشانہ بنایا ہے۔
یاد رہے کہ نائیجیریا کا شہر موبی گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے جہاں دہشت گرد واقعات کی ذمہ داری بوکو حرام نے قبول کی۔
نائیجیریا کی حکومت اور فوج کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کامیاب کارروائیاں کرنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے لیکن اب تک دہشت گردی میں واضح کمی واقع نہیں ہوئی۔
گزشتہ ہفتے میدوگوری کے ریاستی دارالحکومت بورنو میں خود کش دھماکے میں کم ازکم چار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
نائیجیریا کے صدر محمدو بوہاری نے رواں ہفتے امریکا کا دورہ کیا تھا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جنھوں نے بوکوحرام کے خلاف کارروائیوں کے لیے مزید تعاون کی یقین دہانی کرادی تھی۔