موٹرسائیکل گرل: عورت کا پہیہ چلنے دو!
حالیہ چند پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لگا کہ جیسے انہیں خالصتاً کمرشل بنیادوں پر تخلیق کیا گیا ہے۔ حالانکہ سینما پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے رابطہ کاری کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہوتا ہے اور اس کا اندازہ ہولی وڈ اور بولی وڈ کی چند فلموں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے، جن میں چند غیر روایتی موضوعات کو بڑے ہی ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک اس میڈیم کو استعمال کرکے ہم عوام کو تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف موضوعات کے حوالے سے رہنمائی بھی فراہم کرسکتے ہیں۔
لیکن فلم سازوں کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر غیر روایتی موضوعات پر فلم تخلیق کی گئی تو مالی طور پر انہیں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، مگر چند دنوں پہلے سینما کے بڑے پردے پر ریلیز ہونے والی فلم ’موٹرسائیکل گرل‘ میں معاشرے کے اہم موضوع پر بڑی خوبصورتی اور تخلیقی انداز کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔
موٹرسائیکل گرل لاہور کی ایک دوشیزہ زینتھ عرفان کی زندگی کی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی گئی فلم ہے۔ زینتھ عرفان وہ پہلی دلیر خاتون ہیں جنہوں نے اپنے والد کی خواہش کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے لاہور سے خنجراب تک کا انتہائی کٹھن سفر موٹرسائیکل پر تنہا طے کیا۔
موٹرسائیکل گرل میں مرکزی کردار سوہائے علی ابڑو نے ادا کیا ہے جبکہ ان کے ساتھ فنکاروں میں علی کاظمی اور دیگر بھی شامل ہیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر عدنان سرور نے خواتین کو درپیش روز مرہ کے مسائل کو نہایت عمدہ طریقے سے اُجاگر کیا ہے۔
پاکستان میں عورت کی پریشانی کی وجہ صرف مرد نہیں بلکہ ...
پاکستان میں خواتین گھر گھرستی کے ساتھ ساتھ کئی مشکل کام سر انجام دیتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو خواتین باقاعدگی کے ساتھ کھیتوں کے کام، مویشیوں کی دیکھ بھال میں مدد کرتی ہیں، جبکہ کچھ علاقوں میں تو خواتین کوسوں پیدل چل کر پانی بھی بھر لاتی ہیں۔ ان کی اس قدر محنت کا اقرار کرنے کا ویسے تو ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں لیکن یہی خواتین جب کوئی غیر روایتی کام کرنے کی تھوڑی بھی کوشش کریں تو صرف معاشرہ ہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر گھر والوں کی جانب سے بھی طعنوں اور عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔
اس فلم میں مرکزی کردار 18 سالہ لڑکی ہے اور اسے بھی مذکورہ بالا حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر وہ ہمت اور حوصلہ نہیں ہارتی بلکہ معاشرے کے آگے ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی ہے اور ایک نئی مثال رقم کرنے کی اپنی کوشش کو جاری رکھتی ہے، بالآخر وہ خود کو منوانے میں کامیاب رہتی ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اکثر و بیشتر ہمارا معاشرہ خواتین کے لیے ایسے حالات اور مصائب پیدا کردیتا ہے کہ ان کو اپنے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے روایتوں کے شکنجے سے باہر نکلنا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔ موٹرسائیکل گرل کی کہانی بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جہاں وین ڈرائیور کے خراب رویے سے تنگ آکر فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی سوہائے ابڑو موٹر سائیکل سیکھنے اور چلانے کا فیصلہ کرتی ہے۔
یہ فلم پاکستان کی تمام خواتین کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ خود کو درپیش مسائل کو اپنا نصیب یا معاشرے کی روایت سمجھ کر قبول نہ کریں بلکہ ایسے اقدامات کریں جن سے ان کے مسائل حل ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے دقیانوسی روایات کی زنجیروں کو خود اپنے ہاتھوں سے توڑنے کی ہمت پیدا کریں۔
پاکستان بھر میں لاکھوں خواتین روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران مختلف پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں۔ چند غیرمہذب مردوں، بشمول ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی جانب سے خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جانا اب ایک عام بات تصور کی جانے لگی ہے۔ سوہائے علی ابڑو نے ایسی تمام خواتین کو پیغام دیا ہے کہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کو خاموشی سے مت سہیں بلکہ اپنے لیے آواز بلند کریں اور خود کو بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کریں۔
خوش قسمتی کے ساتھ پاکستان میں زینتھ کے علاوہ دیگر ایسی خواتین کی مثالیں بھی موجود ہیں جنہوں نے معاشرے میں مصائب کے بوجھ سے گھبرانے کے بجائے دیدہ دلیری سے ان مسائل کا سامنا کیا ہے۔ ایسی ہی ایک بہادر خاتون شمیم اختر صاحبہ بھی ہیں، شمیم اختر نے زندگی کے مصائب سے گھبرانے کے بجائے ان مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے سامنا کیا۔ شمیم اختر پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون بڑے ہی عزم و حوصلے کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں ٹرک چلاتی ہیں۔
وہ خیبر پختونخوا کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں بھی کمال مہارت سے ٹرک دوڑاتی ہیں۔ مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جانے والے اس شعبے میں شمیم اختر نے اپنی مہارت، لگن اور اچھے اخلاق سے وہ مقام بنایا ہے کہ ان کے تمام ساتھی ایک ماں اور بہن کے طور پر ان کی عزت کرتے ہیں۔
موٹرسائیکل گرل میں ہلکے پھلکے انداز میں اس بات کی اہمیت بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ رفع حاجت کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے سے انسان خود بھی صحت مند رہتا ہے اور اس کے اطراف موجود لوگ بھی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
اس فلم میں جہاں مردوں کو بہت ہی زیادہ منفی انداز میں دکھایا گیا ہے وہیں لڑکی کے بھائی کو اپنی بہن کی ڈھال اور ڈھارس بنتے ہوئے بتایا گیا ہے جو کہ ایک مثبت بات ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہنوں کی راہ میں روڑے اٹکانے والے بھائی تو موجود ہیں لیکن دکھ درد اور مصائب میں بہنوں کی دلجوئی کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔ فلم میں سوہائے علی ابڑو کے بھائی کے کردار نے یہ بات اجاگر کی ہے کہ کس طرح بھائی اپنی بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ان کی کامیابی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
زینتھ عرفان نے اپنے والد کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ان تمام والدین کو ایک پیغام دیا ہے جو بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر منفی سوچ رکھنے والوں کو اس فلم کے تخلیق کاروں نے یہ پیغام دیا ہے کہ اچھی تعلیم اور تربیت فراہم کرکے ماں باپ اپنی بیٹی کو بھی معاشرے کا ایک کارآمد فرد بناسکتے ہیں۔
اس فلم میں 2 گانے بھی شامل ہیں، دونوں ہی نغمے فلم میں کہانی کے مزاج کے عین مطابق ہیں اور سینما ہال میں فلم بین بھی ان سے خوب محظوظ ہوئے۔ اس فلم کی کہانی میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ فلم میں زینتھ اپنے منگیتر سے خود اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے، اپنی خواہش کا بروقت اظہار کرکے وہ تمام خواتین فلم بینوں کو پیغام دیتی ہے کہ اپنی خواہش کو دل میں دبانے کے بجائے اس کا اظہار کرنا بہتر ہے۔
پاکستان میں ہم گزشتہ 3 عشروں سے ٹیلی ویژن کے توسط سے معاشرے کی فلاح کا کام لے رہے ہیں لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سینما کے بڑے پردے پر بھی ایسی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں جن میں معاشرتی مسائل کو اُجاگر کیا جائے۔
موٹرسائیکل گرل اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ امید ہے دیگر ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز بھی اپنی فلموں کے توسط سے مثبت معاشرے کی تخلیق میں کردار ادا کریں گے۔
تبصرے (2) بند ہیں