پاکستان کی پہلی آبی پالیسی مشکلات میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟
پاکستان آبی وسائل سے مالامال تو ہے لیکن ہم ان وسائل کے انتظام اور انصرام میں بہت حد تک ناکام ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پانی کے وسائل پر مرتب ہونے والے اثرات اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پانی کے شعبے میں ہماری بدانتظامی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پانی کی حفاظت کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ ہم آبی ذخائر کو گٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، نتیجتاً آج ہمارا کوئی بھی آبی وسیلہ چاہے دریا ہو، سمندر ہو یا ندی نالے اور جھیلیں، سب کے سب انتہائی آلودہ ہوچکے ہیں، ایسے میں 70 برسوں بعد ہی سہی ملک کی پہلی آبی پالیسی کا منظور ہونا ایک خوش آئند بات سمجھی جاسکتی ہے۔
تفصیل کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل میں منظور ہونے والی پاکستان کی پہلی آبی پالیسی میں پانی کی تقسیم کو بہتر سے بہتر بنانے، نئے اور ترجیحی بنیادوں پر آبی ذخائر کے لیے ڈیم بنانے اور بیراجوں کی گنجائش بڑھانے پر زور دیا گیا ہے جبکہ پانی کے وسائل کی ترقی اور مسائل کے حل کے لیے ترقیاتی بجٹ کا دسواں حصہ مختص کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اسی اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ آبی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے ایک خود مختار ادارہ بنایا جائے گا جس میں چاروں صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ ادارہ ’قومی واٹر کونسل‘ کے نام سے تشکیل دیا جائے گا جو آبی پالیسی پر عمل درآمد کا ذمہ دار ہوگا اور اس کے سربراہ وزیرِ اعظم خود ہوں گے۔ وفاقی وزراء برائے آب، خزانہ، بجلی، منصوبہ بندی و ترقی اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اس ادارے کا حصہ ہوں گے۔
پڑھیے: پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک بن رہا ہے، ماہرین
پالیسی کے ابتدائیے میں دی گئی تفصیل کے مطابق پاکستان میں پانی کے وسائل دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1951ء کے وقت پانی کی دستیابی فی کس 5,260 مکعب میٹر (کیوبک میٹر) تھی جو اب کم ہوتے ہوتے 1000 مکعب میٹر سے گرچکی ہے۔ اگلے 7 برسوں یعنی 2025ء تک دستیاب پانی کی فی کس مقدار 860 مکعب میٹر تک گرنے کا خطرہ ہے، جس سے پاکستان پانی کی شدید کمی والے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔
پالیسی میں نئے ذخائر کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے اور جنگی بنیادوں پر 10 ملین ایکڑ فٹ کی گنجائش کے نئے ذخائر بھی تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئیے اس کے کچھ ابواب کا جائزہ لیتے ہیں۔
پینے کا پانی اور صفائی
آبی پالیسی میں پینے کے پانی اور صفائی کی سہولتوں تک شہری اور دیہی دونوں علاقوں کی رسائی کی بات کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ پانی کے وسائل میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ پانی کا زیاں کم سے کم ہو، چوری نہ ہو، میٹر سسٹم اور مالی پائیداری کے لیے شہری علاقوں میں پانی کی قیمت کا از سرِ نو جائزہ ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ دیہی علاقوں میں بھی پانی کی قابلِ برداشت قیمت مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے معیار کی بھی نگرانی کی جائے گی۔ سطح زمین اور زیرِ زمین پانی کو آلودہ ہونے سے ہر ممکن طور پر بچایا جائے گا اور اس کے لیے ضروری قانون سازی بھی کی جائے گی۔ ملک کے دشوار گزار علاقوں میں سولر ڈیسیلینیشن پلانٹ کے ذریعے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا۔
زراعت
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کو بہتر بنانے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا، اس حوالے سے مشہورِ زمانہ تصور ’More Crop Per Drop‘ یعنی پانی کے ہر قطرے سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانا، پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ زراعت کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا جائے گا اور پانی کی بچت کی جائے گی، اس حوالے سے ایک قومی پلان بنایا جائے گا۔
پڑھیے: پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں؟
ایسی فصلیں جو موسمیاتی تبدیلیوں، خشک سالی، کم پانی اور گرین ہاؤس گیسز جیسے حالات برداشت کرسکتی ہیں، ان کے حوالے سے انتہائی اعلی سطح کی تحقیق کی جائے گی۔ جدید زرعی نیٹ ورک بنایا جائے گا جس سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اور زرعی شعبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے گا۔ زیرِ زمین پانی کی سطح کو بحال رکھا جائے گا۔ بائیو کھاد اور بائیو زرعی ادویات کے استعمال کو فروغ دیا جائے گا تاکہ زیرِ زمین پانی آلودہ نہ ہو۔ معاہدہ آب برائے 1991ء (The Water Apportionment Accord of 1991) کے تحت صوبوں کو پانی کی تقسیم کی جائے گی اور ارسا کے ذریعے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
موسمیاتی تبدیلی
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، یہاں شدید سیلاب، مون سون کے زیرِ اثر بے ترتیب اور شدید نوعیت کی بارشوں اور خشک سالی کے خطرات لاحق ہیں، جن کے اثرات پانی کے وسائل پر مرتب ہوتے ہیں۔ برف باری کے دورانیے میں تبدیلی اور گلیشئرز کا تیزی سے پگھلنا یا بڑھنا، یہ سب دریاؤں میں پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ گلیشیائی علاقوں میں جھیلوں کا پھٹنا glacial lakes outburst Floods) GLOF) ڈیموں میں ریت کا بھر جانا ان سب کا سدِباب ضروری ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے ملک کے گرم اور خشک علاقے مزید متاثر ہوتے ہیں۔ گرمی کے بڑھنے سے فصلوں، جانوروں اور انسانوں کو بھی پہلے کے مقابلے زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ بارشوں کا نظام پیچیدہ ہوجاتا ہے اور کوئی بھی پیشگوئی ممکن نہیں ہوپاتا۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اداروں سے بھی مدد لینی ہوگی۔ ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پانی کی بچت، خصوصاً سطح زمین اور زیرِ زمین ذخائر میں اضافہ بھی ضروری ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے کم مدتی اور طویل مدتی اقدامات ضروری ہیں اور اس کے لیے کلائمیٹ چینج پالیسی 2012ء پر عمل درآمد ضروری ہوگا۔
آبی پالیسی کے دیگر ابواب میں پانی کے وسائل کی ترقی، دریائی طاس کے علاقوں میں ماحولیاتی استحکام، پانی کے وسائل کی حفاظت، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، بین السرحدی آبی مسائل، آبپاشی، بارشوں کے پانی سے زراعت، پینے کا صاف پانی، شہروں میں پانی کا انتظام، پن بجلی، صنعت، پانی کے حقوق، اسٹیک ہولڈرز کی فیصلہ سازی میں شمولیت، پانی کے حوالے سے پائیدار ڈھانچے، متعلقہ خطرات، پانی کے معیار کا انتظام، معلومات، عوامی آگاہی، تحقیق، معاشی اور مالی پائیداری، سرمایہ کاری کی ضرورت اور پانی کے شعبے میں متعلقہ اداروں کی تربیت کاری وغیرہ شامل ہیں۔
پڑھیے: قزبانو کا گاؤں: جہاں پانی اور علم کی شدید پیاس ہے
آبی پالیسی کے حوالے سے ماہرین کے تبصروں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ اس پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عام سی باتوں کو خاص پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر پرویز امیر
ماہرِ آب و زراعت ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق اس پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یوں سمجھا جائے کہ خواہشات کی ایک فہرست ہے جس پر عمل کیسے ہوگا؟ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ عمل کون کرے گا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ خواہشات اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ پالیسی میں پانی کے شعبے کے مضبوط ادارے واپڈا کو کمزور بنا دیا گیا ہے جو کہ 1960ء سے 80ء کی دہائی تک اہم اور بڑے اداروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ لوگ یہاں سے تربیت پاکر عالمی اداروں میں فرائض سر انجام دیتے تھے لیکن اس کا پالیسی میں کوئی کردار نہیں ہے، اس کے علاوہ پانی کی قیمت کی بات کی گئی ہے جو پاکستان میں بہت مشکل کام ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس
ایک اور ماہر آبی امور ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق اگر میں ایک لفظ میں اپنے احساسات کا اظہار کروں تو وہ لفظ ’مایوسی‘ ہوگا۔ اس پالیسی میں کئی تضادات ہیں۔ ابتداء میں بات کی گئی ہے کہ اگر پانی کی دستیابی فی فرد 1000 سے کم ہوگئی تو پاکستان پانی کی شدید کمی والے ممالک میں شمار ہوگا۔ میں پانی کی کمی کے حوالے سے اس بات کو نہیں مانتا۔ عالمی سطح کے معیار کے مطابق ایک صاف ستھری گھریلو زندگی گزارنے کے لیے فی فرد کو ایک دن کے لیے 40 گیلن یا 125 لٹرز پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے پاس دریاؤں میں دستیاب پانی 180 ارب کیوبک میٹر ہے۔ اس کے مطابق اگر پورے پاکستان کی آبادی کو ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کے لیے پانی فراہم کیا جائے تو اس کی مقدار 15 ارب کیوبک میٹر ہوگی اسے دو گنا بھی کرلیں تو بھی یہ مقدار 30 ارب کیوبک میٹر بنتی ہے، مطلب یہ ہوا کہ آپ کے پاس پھر بھی 150 ارب کیوبک میٹر پانی بچتا ہے تو پانی کی کمی کیسے ہوگئی؟
اس کے علاوہ انڈس ڈیلٹا جیسے اہم مسئلے کا کہیں ذکر نہیں سوائے ایک سطر کے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم انڈس ڈیلٹا کو پانی دیں گے لیکن جب ترجیحات کا ذکر کیا گیا ہے تو وہاں کہیں بھی انڈس ڈیلٹا کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کہا گیا ہے کہ ہم صوبوں کو 1991ء کے معاہدہءِ آب کے مطابق پانی فراہم کریں گے اور اس معاہدے میں انڈس ڈیلٹا شامل نہیں ہے۔ انڈس ڈیلٹا کو پانی فراہم کرنا اور اسے دوبارہ اپنی اصلی حالت پر بحال کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے تھی، یہ لاکھوں لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ تباہی اور بربادی کی ایک پوری داستان ہے جو سندھ کے ساحلی علاقوں میں رقم ہورہی ہے۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہم آبپاشی کے ساتھ نکاس کے لیے نالے یا نہروں (اریگیشن اور ڈرینیج) کی بات کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنا زرعی اور آبپاشی کا ڈھانچا نہیں بدلیں گے۔ یہ نہری نظام 19ویں صدی کا ہے اسے ہم 21ویں صدی میں جوں کا توں چلا رہے ہیں۔ ڈرینیج کی ضرورت آپ کو تبھی پڑے گی جب آپ ضرورت سے زیادہ پانی کھیتوں کو فراہم کریں گے۔ یہ پانی کے زیاں کا باعث بن رہا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم کھیتوں میں پانی کی ضرورت سے 12 گنا زیادہ دریا سے نکالتے ہیں اور 6 گنا زیادہ کھیت کو فراہم کرتے ہیں۔ باقی پورا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اضافی پانی کے نکاس کے لیے جو نالے یا نہریں بنائی جائیں گی وہ کھیتوں کا آلودہ پانی لے کر دوبارہ صاف پانی میں شامل کردیں گی، ایسے تمام تجربے ناکام ہوچکے ہیں۔ ایل بی او ڈی کی مثال یاد رکھنی چاہیے۔
پڑھیے: بربادی انڈس ڈیلٹا کا مقدر کیوں بنی؟
ایک طرف تو ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کی بات کی گئی ہے دوسری جانب کہا گیا ہے کہ جہاں زیرِ زمین پانی گہرا ہو وہاں سولر ٹیوب ویل لگا کر پانی کھینچا جائے۔ جہاں زیرِ زمین پانی گہرا ہو یعنی زیادہ نیچے ہو وہاں ٹیوب ویل لگانے سے پانی کی سطح مزید گرجائے گی، جس سے ماحولیاتی نظام پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ کوئٹہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پانی کی سطح 800 سے 1000 فٹ تک نیچے گرگئی ہے۔
اس کے علاوہ حیران کن بات یہ ہے کہ پوری پالیسی کو پڑھ لیجیے کہیں بھی کوئی لائحہ عمل یا ایکشن پلان نہیں ملے گا۔ ایکشن پلان کے بغیر اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے۔ مختصراً یہ کہ اس آبی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ اینٹی گریٹڈ واٹر ریسورس مینیجمنٹ (IWRM) کے اصولوں پر کام کیا جائے گا لیکن ایسا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔
پڑھیے: موسمی تبدیلی، پانی کی قلت سے صحرائی رقبے میں اضافہ
بہرحال پاکستان کی پہلی آبی پالیسی منظوری کے مراحل سے گزرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس حکومت کی مدت بھی ختم ہورہی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والی حکومت کی ترجیحات میں آبی پالیسی پر عمل درآمد شامل ہوگا۔