الیکشن قریب آتے ہی پارٹیاں بدلنے کی حقیقی وجہ؟
خیبر پختونخوا اسمبلی کے 20 ارکان کا نام لیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حال ہی میں الزام لگایا کہ گزشتہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ان قانون سازوں نے اپنے ووٹ 'فروخت' کیے تھے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی اندرونی تحقیقات میں پارٹی نے پنجاب کے 28 ارکان کی نشاندہی کی تھی جنہوں نے انتخابات میں ایک اپوزیشن رکن کو نشست جیتنے میں مدد دی تھی۔
ان مبیّنہ دھوکوں کے بعد عوامی طور پر پارٹیاں چھوڑی گئیں۔ حکومت کی مدت تمام ہونے سے صرف چند ہفتے قبل جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے کئی پارلیمنٹیرینز نے اپنی جماعت سے راستے جدا کیے اور پھر سندھ سے اقلیتی نشست پر منتخب ایک اور پارلیمنٹیرین نے بھی پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس موسم کی شروعات درحقیقت اس سال جنوری میں ہوئی تھی جب بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے اپنے وزیرِاعلیٰ کو برطرف کرکے نئے وزیرِاعلیٰ کا انتخاب کرلیا۔ اگلے چند ہفتوں میں اگر اس رجحان میں تیزی نہ بھی آئی، تب بھی یہ جاری ضرور رہے گا۔
انتخابات کے دور میں پارٹی چھوڑنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، کیوں کہ سیاسی کارکن حلقوں اور جماعتوں کی بدلتی حقیقتوں کے حساب سے خود کو ڈھالنے اور اگلی حکومت میں بھی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مگر خفیہ اور عوامی طور پر پارٹی بدلنے کے عمل کے کچھ نئے خواص سامنے آئے ہیں: ایسے زیادہ تر لوگ یا تو مخصوص نشستوں سے ہیں یا پھر آزاد امیدوار ہیں جو انتخاب جیتنے کے بعد پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ نیا رجحان ہمارے نظامِ نمائندگی کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے جن کا جماعتی سیاست پر طویل مدتی اثر ہوگا۔
قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں (60 برائے خواتین، 10 برائے اقلیتی ارکان) پر انتخاب کے لیے پارٹی لسٹ سسٹم پر عمل کیا جاتا ہے جس میں پارٹیوں کو قومی اسمبلی میں اپنی جیتی گئی عمومی نشستوں کے تناسب سے نشستیں حاصل ہوتی ہیں، جن پر پھر پارٹی کے نامزد کردہ ارکان کامیاب قرار دیے جاتے ہیں۔
پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟
اس سسٹم کے تحت منتخب ہونے والے ارکان کا کوئی جغرافیائی حلقہ نہیں ہوتا، چنانچہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے۔ انہیں انتخابی مہم بھی نہیں چلانی پڑتیں اور نہ ہی انہیں اپنے حلقے کے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے رکھنے کا سر درد پالنا پڑتا ہے۔ انہیں صرف پارٹی کے اندر تعلقات بنائے رکھنے ہوتے ہیں۔ یہ تعلق برقرار رکھنا آسان ہے، بس پارٹی جیسا کہے ویسا کریں۔ بے حلقہ ارکان کا اپنی پارٹیوں سے صرف یکطرفہ تعلق ہوتا ہے اور ان کی اپنی کوئی سیاست نہیں ہوتی۔
دوسری جانب حلقوں سے منتخب ہونے والے ارکان کو اپنے منتخب کنندگان سے تعلق بنائے رکھنا ہوتا ہے۔ پارٹیوں کے اندر ان کی حیثیت ان کے اس تعلق اور ان کے ’قابلِ انتخاب‘ ہونے پر منحصر ہوتی ہے۔
یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ مخصوص نشست والے رکن کی بحیثیت پارٹی نمائندہ یا پھر ایوان میں اچھی کارکردگی ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ پارٹیوں کے لیے یہ بس قابلِ استعمال افراد ہوتے ہیں جن کو دوبارہ موقع نہ دینے سے پارٹی کی سیاسی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پارٹی قیادت انہیں درونِ خانہ لابیوں اور گروہوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
فی الوقت قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر صرف ایسی 4 خواتین ہیں جو 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی منتخب ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ 4 وہ ہیں جو 2002ء اور 2013ء میں منتخب ہوئیں مگر 2008ء میں نہیں۔ پیپلزپارٹی کی سندھ سے خاتون رکن شگفتہ جمانی مخصوص نشست پر موجود وہ واحد پارلیمینٹیرین ہیں جو اس نظام کی آمد سے اب تک تمام رکن بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جے یو آئی (ف) کی بلوچستان سے رکن آسیہ ناصر 2002ء اور 2013ء میں اقلیتی اور 2008ء میں خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کے رمیش لعل وہ واحد ایم این اے ہیں جو 2002ء سے اب تک تمام انتخابات میں اقلیتی نشست پر کامیاب ہوئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاتون کا مخصوص نشست پر دوبارہ منتخب ہونے کا امکان نہایت کم ہے۔ اگر وہ پارٹی میں مضبوط جڑیں رکھنے والی لابی سے تعلق رکھنے والے خاندان کی نہ ہوں تو ان کی نامزدگی ایک دفعہ کے لکی ڈرا جیسی ہوتی ہے۔
مگر 5 سالہ دورانیے کے بعد ان پارلیمنٹیرینز کا سیاست میں ایک مقام بن جاتا ہے اور وہ اپنی کارکردگی کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ پارٹی سے ان کی یہ بے وفائی ہمارے نظامِ نمائندگی کی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف نظام میں وہ تبدیلیاں متعارف کروا کر بدلا جاسکتا ہے جس میں ان خواتین کو حلقے دیے جائیں۔ اس کے علاوہ زندگی میں ایک مرتبہ کا یہ موقع نسوانی قیادت کی تعمیر نہیں کرسکتا جو کہ درحقیقت نشستیں مخصوص کرنے کا مقصد تھا۔
پارٹیاں چھوڑنے والوں میں دوسری تعداد ان ارکان کی ہے جنہوں نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات جیتے اور پھر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ اس کا قانونی دروازہ جنرل مشرف نے تب کھولا جب 2002ء کے انتخابات کے اوائلی نتائج میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ان کی 'کنگز پارٹی' نے حکومت بنانے جتنی اکثریت حاصل نہیں کی تھی۔
مزید پڑھیے: بلوچستان میں کی گئیں حلقہ بندیوں میں مسئلہ کہاں ہے؟
تب سے لے کر اب تک اس دروازے کو بند کرنے کے کئی مواقع آئے جن میں تازہ ترین موقع 2017ء کا الیکشن ایکٹ تھا، مگر کسی بھی سیاسی جماعت نے خود کو اس فائدے سے محروم کرنا عقلمندی نہیں سمجھا۔ تنگ نظر سیاسی جماعتیں اسے درحقیقت فائدہ تصور کرتی ہیں کیوں کہ اس سے نہ صرف ان کی عمومی نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ انہیں مخصوص نشستیں بھی زیادہ مل جاتی ہیں۔
کئی مواقعوں پر ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک آزاد امیدوار نے کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کو شکست دی اور پھر اسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔ بلوچستان کے 3 ارکانِ قومی اسمبلی نے 2013ء میں حلقہ این اے 265، 266 اور 267 سے انتخاب جیت کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی، جبکہ پارٹی کے اپنے امیدواروں کو مجموعی ووٹ کا صرف 2.6 فی صد ووٹ ملا تھا۔ تو مسلم لیگ (ن) نے ان حلقوں میں اپنی موجودگی نہ ہوتے ہوئے بھی ان ارکان کو اپنی صفوں میں شامل کرلیا۔
آزاد امیدوار 'ذاتی طور پر' انتخاب جیتتے ہیں مگر وہ اپنے مکمل دورانیے تک آزاد نہیں رہنا چاہتے اور نہ ہی وہ اپوزیشن میں جا کر اقتدار سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ وہ آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کا خطرہ صرف اس لیے مول لیتے ہیں تاکہ جو بھی جماعت حکومت بنائے، وہ اس میں شامل ہوجائیں۔ اس طرح وہ فاتح جماعت کو اپنے حلقے تک لاتے ہیں۔
یہ ایک پیچیدہ تعلق ہے جس میں ایک فرد کے لیے پوری سیاسی جماعت ہی قابلِ استعمال ہے۔ تو کیا یہ بات حیران کن ہے کہ ایسے ارکان اپنے سیاسی کریئر کو آگے بڑھانے کے لیے اگلا بہتر موقع اپنا لیں؟
افراد کا آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا اور جیتنا جماعتی سیاست کی کمزوری کی علامت ہے اور انہیں اپنی صفوں میں شامل کرکے سیاسی جماعتیں صرف اس کمزوری میں اضافہ کرتی ہیں۔
آزاد امیدوار پارٹیوں کو زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں مگر اعداد و شمار گمراہ کن ہوسکتے ہیں اور اس کا پتہ صرف بحران کے دنوں میں چلتا ہے جب معاملات درست کرنے کے لیے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔