پاکستان میں زچگی کی چھٹیاں 6 ماہ تک بڑھانے پر غور
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے بین الاقوامی طور پر رائج زچگی کی چھٹیوں کو چھ ماہ تک بڑھانے پر غور کیا جارہا ہے تاکہ ماؤں میں نومولود بچوں کو اپنا دودھ پلانے کے رجحان کو فروغ دیا جاسکے۔
وفاقی وزر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے لیکن زچگی کی چھٹیاں فقط تین ماہ کے لیے دی جاتی ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی میں ’امید سے آگے‘ کے نام سے بڑے پیمانے پر شروع کی گئی آگاہی مہم کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں عالمی تحریک اسکیلنگ اپ نیوٹریشن (ایس یو این) زچگی کی چھٹیوں میں اضافے کی قانون سازی میں حکومت کی معاونت کرے، صرف تین ماہ کی چھٹیاں ملنے پر ایک ماں کس طرح بچے کو صرف اپنا دودھ پلا سکتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، نومولود بچوں کی اموات میں سب سے خطرناک ملک قرار
مریم اورنگزیب نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے دفاتر میں ڈے کیئر سینٹرز کا کوئی رواج نہیں ہے، جبکہ دیہاتوں میں خواتین کے 6 سے 8 بچے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے مقابلے میں بہتر خوراک مہیا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور خود مکمل غذائیت سے محروم رہتی ہیں، اس وقت پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے کمزور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سماجی تبدیلی لانے کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اس لیے سماجی تنظیموں کو ایسے مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ کی مدد لینی چاہیے۔
مریم اورنگزیب نے بتایا کہ کوہاٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی کے حلقہ ’این اے 14‘ میں 89 فیصد لوگوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا، تاہم جب اس سلسلے میں شہریار آفریدی کی مدد لی گئی تو یہ شرح کم ہو کر 38 فیصد رہ گئی۔
مزید پڑھیں: 60 فیصد پاکستانی مناسب خوراک سے محروم
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے اسکیلنگ اپ نیوٹریشن (ایس یو این) کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر ارشاد دانش نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں نومولود کو ماں کا دودھ پلانے کو یقینی بنانے کے لیے 6 ماہ تک زچگی کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وہاں دفاتر حتیٰ کے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں بھی ’نرسز کارنر‘ بنائے جاتے ہیں تاکہ چھ ماہ تک بچے کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ نہ دیا جائے، جبکہ پاکستانی قوانین ان مسائل کے بارے میں خاموش ہیں۔‘
ڈاکٹر ارشاد کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تنظیم بل منظور کرانے میں حکومت کی مدد کرے گی جس کے تحت ایسے ہر آفس میں ’نرسز کارنر‘ بنایا جاسکے جہاں تین یا زائد خواتین ملازم ہوں، تاکہ نومولود بچوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔
اس موقع پر منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ایم عظیم خان نے کہا کہ اس مہم کا مقصد لوگوں میں آگاہی پھیلانا اور نومولود بچوں میں اموات کی شرح کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور غذائی قلت
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ بہتر غذائیت اور دیکھ بھال کی صورت میں نومولود بچوں کی صحت کو بہتر آغاز فراہم کیا جاسکتا ہے، جس سے ہزاروں ماؤں اور بچوں کی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ڈاکٹر خالد ریاض نے کہا کہ یہ مہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر غذائیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کے لیے شروع کی گئی ہے اور اس کے ذریعے ماں اور بچے کی صحت بہتر بنانے کے لیے ابتدائی ہزار دنوں میں بہترین غذا فراہم کرنے کی آگاہی پھیلانے پر زور دیا جارہا ہے۔
ایس یو این کے فوکل پرسن اسلم شاہین نے کہا کہ یہ مہم طویل عرصے تک جاری رہے گی تاکہ پاکستان میں غذائیت کی کمی کے سبب ہونے والے معاشی نقصان کو ختم کیا جاسکے۔
یہ خبر 25 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔