ٹیکس کے حوالے سے بجٹ خدشات دور کرکے ہی ترقی ممکن
کاروباری حضرات کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے چھٹے اور آخری بجٹ میں کم از کم ٹیکس بوجھ، ناقابلِ برداشت توانائی قیمتیں، واجب الادا ٹیکس ریفنڈز اور برآمدات سے چھوٹ جیسے مسائل کو حل کردے گی، اور اسی کے ذریعے ترقی ممکن ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بڑی مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں اور بینکوں نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت موجودہ بجٹ میں وسیع پیمانے پر ٹیکس اصلاحات لے کر آئے گی جس کی مدد سے نافذ کیے گئے سپر ٹیکس کو 3 سے 4 فیصد تک، کارپوریٹ انکم ٹیکس میں 25 فیصد جبکہ سیلز ٹیکس میں 13 فیصد تک کی کمی ہوگی۔
ایک فوڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ’ہم نے کمپنیوں پر سے ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے بڑی تعداد میں تجاویز پیش کیں تھیں۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ایک ساتھ ہی حکومت تمام تجاویز پر کام نہیں کرسکتی تاہم بڑی کمپنیوں پر سپر ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس کو کم کرنا ہی پہلا قدم ہوسکتا ہے‘۔
انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ان کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز سے حکومت کو انکم ٹیکس کی کمی کی شکل میں بہت زیادہ نقصان ہوگا، تاہم اس سے ملک میں محصولات سے متعلق اداروں کو ایسے سیکٹر تک ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کا موقع ملے گا جو اس وقت ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
مزید پڑھیں: موجودہ حکومت کے آخری بجٹ کے اخراجات میں اضافے کا امکان
ان کا کہنا تھا کہ مالی خسارے کا حل پہلے سے ٹیکس دینے والے سیکٹر پر مزید ٹیکس نافذ کرکے نہیں ملے گا بلکہ یہ ایسے کاروبار پر ٹیکس نافذ کرنے سے حل ہو گا جو اس وقت ٹیکس ادا کرنے کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس میں کمی سے کارپوریٹ اداروں کے منافع میں اضافہ ہوگا جو ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گا، اور نتیجتاً اس سے نہ صرف حکومتی ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ اس سے ملک میں ملازمتوں کے مواقع بھی ملیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہر کسی کے لیے صرف فائدہ مند ہی ہے۔
خیال رہے کہ حکومت نے بڑی کمپنیوں پر 16-2015 کے دوران سپر ٹیکس نافذ کیا تھا، جس کے بعد سے یہ بڑھتا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں برس مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آئندہ بجٹ کیلئے چیلنج قرار
ایک سینئر بینکر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس ریٹ میں کمی کو سرہاتے ہیں، تاہم حکومت کو کارپوریٹ سیکٹر میں بھی ٹیکس بوجھ کر کم کرنے لیے ایسے باہمت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز (پی ٹی ای اے) کے چیئرمین صادق جاوید کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت پالیسیوں کے مجموعہ پر مشتمل ایسی پالیسی کا اعلان کرے جو بیرونی سیکٹر کے خطرات کو کم کردے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ادائیگی کے توازن کو کم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہمیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہمیں تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے برآمدات کو بڑھانا لازمی ہے۔
صادق جاوید نے کہا کہ جب ہم برآمدات کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پاس بدقسمتی یا خوش قسمتی سے صرف ٹیکسٹائل کی ہی صنعت ہے جو مستقبل قریب میں ایک بامعنی طریقے سے برآمدات کو بڑھا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: نئے مالی سال کا بجٹ دینا موجودہ حکومت کا اختیار نہیں، خورشید شاہ
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں 12 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے، دوسری جانب تجاری خسارہ 26 ارب 20 کروڑ ڈالرز سے تجاوز ہو چکا ہے، ملکی برآمدات 21 ارب 80 کروڑ ڈالرز جبکہ درآمدات 48 ارب ڈالرز ہیں۔
صادق جاوید نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران درخواست کی گئی تھی کہ خطے میں مسابقتی سطح پر آنے کے لیے ٹیکسٹائل صنعت پر لاگو ہونے والے اضافی توانائی ریٹ کو کم کردیا جائے۔
کار اور ٹریکٹرز کے آٹو پارٹس بنانے والی کمپنی کے سید نبیل ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں اس کے میکرواکنامکس اشاریے مشکل وقت کی عکاسی کر رہے ہیں۔