سلوواک کے پولیس چیف صحافی کے قتل پر مستعفی
یورپ کے چھوٹے سے ملک سلوواکیا کے متنازع پولیس سربراہ نے صحافی کے قتل کی تحقیقات میں سیاسی طور پر اثر انداز ہونے پر استعفیٰ دے دیا۔
خیال رہے کہ فروری کے مہینے میں صحافی جان کوچیاک اور ان کی منگیتر کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا جس کے بعد سلوواکیا سیاسی بحران کا شکار ہوگیا۔
قتل کیے جانے والے جان کوچیاک اعلیٰ سیاست دان اور اطالوی مافیا کے درمیان مبینہ تعلقات پر تحقیقات کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں: بوسنیا میں قتل عام، جنگ کے 21سال بعد بھی تدفین جاری
صحافی کے قتل کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سلوواکیا میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے حکومت اور افسران کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔
وزارت داخلہ رابرٹ کالیناک نے مارچ میں استعفیٰ دیا اور مظاہروں سے بڑھنے والے دباؤ نے وزیر اعظم رابرٹ فیکو اور ان کی پوری کابینہ کو گزشتہ ماہ عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
کالیناک کے بعد آنے والے وزیر داخلہ ٹوماس ڈروکر نے بھی پیر کے روز استعفیٰ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یورپ بھر میں ایچ آئی وی میں اضافہ
بعد ازاں پولیس کے سربراہ تیبور گاسپر، جو کئی ہفتوں سے استعفیٰ دینے سے انکار کر رہے تھے، نے بالآخر مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کھا تیبور گاسپر کی مبینہ سیاسی وبستگی نے جان کوچیاک کے قتل کی تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالی تھیں۔
ان کے مطابق وزیر اعظم کے عہدے پر فیکو کے متبادل پیٹر پیلیگرینی آگئے ہے لیکن اب بھی سابق وزیر اعظم ہی کے فیصلے چلا رہے ہیں کیونکہ وہ حکمراں جماعت کے اب بھی چیئرمین ہیں۔
مزید پڑھیں: سلوواکیا میں پرانے موبائل فونز کا میوزیم
وہاں مقیم سیاسی تجزیہ کار گریگوریج کا کہنا تھا کہ پولیس چیف اگلے مہینے کے آخر میں اس لیے جارہے ہیں کیونکہ فیکو کو ان کے اس عہدے پر ہونے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گاسپر کو اس کیس کو اسمر ایس ڈی پارٹی کے مطابق رکھنے کا کام دیا گیا کیونکہ اس سے ان کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔
قتل اور اس کے بعد جان کوچیاک کے چھپنے والے اداریے نے یورپی یونین کے 54 لاکھ آبادی کے ملک میں میڈیا کی آزادی اور کرپشن پر تشویش کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 8 اپریل 2018 کو شائع ہوئی