ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے، نواز شریف
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں جمہور یت آج تک قدم نہیں جما سکی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 'ووٹ کو عزت دو' سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی شخصیات قومی احتساب بیورو (نیب) کے نشانے پر ہیں ایسے میں آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلی کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہاں چور ڈاکو بھی تاحیات نااہل نہیں ہوتے لیکن کیا میرا جرم ان سب سے بڑا ہے، میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی، کیا میرا جرم میرا نام محمد نواز شریف ہے۔
انھوں نے کہا کہ میری نااہلی کو چھوڑیں مجھے عوام کی نااہلی کی فکر ہے، کوئی ہے جسے فکر ہو کہ پاکستان پر کیا گزر رہی ہے، سیاسی استحکام اور ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے، افسوس کی بات ہے کہ جمہور یت آج تک ہمارے ملک میں قدم نہیں جما سکی، مہذہب قومیں عوامی فیصلوں کا احترام کرتی ہیں اور ادارے اسے تسلیم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو حکمرانی کا حق سونپنا صرف عوام کا حق ہے، عوام کی رائے کو کس طرح بار بار کچلا گیا، عوام کے ووٹ کی طاقت کو کیوں کر عبرت کا نمونہ بنایا گیا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 70 برس تک ہم اس بیمار سوچ کا خاتمہ کیوں نہ کرسکے، ہماری عدلیہ مارشل لا کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی، عدلیہ نے کبھی بھی وہ کردار ادا نہ کیا جو وہ سول حکومتوں کے دوران کرتی رہیں اور تمام آمروں کو آئین کی چھیر پھاڑ کی اجازت دے دی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف 20 وزرا اعظم کا دور 38 برس ہے جبکہ آمریتوں کا دور 32 برس ہے اورکوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔
نواز شریف نے کہا کہ بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا اور مجھے ہائی جیکر قرار دیا گیا اور آج جو میرے ساتھ ہورہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، اگر ووٹ کی عزت نہ ہوئی تو پاکستان ایسے ہی گرداب میں گھرا رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون بھی کالعدم قرار دیئے جارہے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے وقت پر انتخابات کا اعلان کیا ہے، ان کا یہ عزم خوش آئند ہے مگر مسلم لیگ (ن) کو نشانہ پر رکھ لیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہونے کی امید ہوسکتی ہے۔
خدارا عدلیہ کی عزت ہمارے دلوں میں کم نہ کریں،فضل الرحمٰن
جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سیمینار میں اپنے خطاب میں کہا کہ ووٹ کے تقدس پر قومی سطح پر بیداری کی ضرورت ہے، 70 برسوں میں ہم نے ریاستی اور حکومتی سطح پر بے انتہا غلطیاں کی ہیں، پاکستان کے پہلے الیکشن میں عوام کے ووٹ کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیاتھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ملک ہمیں ملا وہاں پہلے عبوری آئین نافذ تھا تاہم 1973 میں مستقل آئین قوم کو دیا گیا لیکن اس جمہوری دور میں بلوچستان کے حقوق پر شب خون مارا گیا جس کے بعد انارکی پھیلی اور عالمی انقلابات سے ہم بھی متاثر ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ووٹ کی پرچی جس کے ساتھ ہے اس کو حکومت کرنے کا حق ہے، ووٹ نے اور ووٹ کی پرچی نے فیصلہ کرنا ہے، اگر ہم بندوق سے ووٹ کی پرچی کی طرف آئے ہیں تو ہمیں اس کو برقرار رکھنا ہے، ہمیں اصول کی طرف جانا چاہیے اور ہمیں ووٹ کی پرچی کو مستحکم کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فوج سے کسی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے کیونکہ فوج ہماری محافظ ہے، فوج ملک و قوم کی ضرورت ہے، جب فوج ریاست کی ذمہ داریوں سے حکومت کی ذمہ داریوں میں آتی ہے وہ تو قابل قبول نہیں۔
عدلیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خدارا عدلیہ کی عزت ہمارے دلوں میں کم نہ کریں، عدلیہ ملک و ریاست کی ضرورت ہے، اگر ایک جج کو ایک فریق جانب دار تصور کرے تو وہ جج مقدمہ نہیں سن سکتا، اگر یہ تاثر ہو کہ میرا جج ایک فریق ہے تو اس کا فیصلہ ملک و عالمی سطح پر متنازع ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ آج بھی کہتا ہوں ہم عدلیہ کی آزادی کے قائل ہیں، میری نوٹس میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ نواز شریف نے کس ادارے کو چھیڑا ہے، ہمارا دین تو کتنا بھی بڑا گناہ ہو اس کو بھی اصلاح کا درس دیتا ہے۔
آئین پاکستان کے باعث ہم مختلف قومیت اور لسانی بنیادوں پر یکجا ہیں، محمود خان اچکزئی
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم مخلتف قومیت اور لسانی بنیادوں کے باوجود اگر یکجا ہیں تو وہ آئین پاکستان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو جس دن پارلیمنٹ سے علیحدہ کیا گیا اس دن کہا تھا کہ آج سے جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی شروع ہوگئی ہے، ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہو ں گے یا غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے جو بڑی قربانیوں سے ملا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں کچھ غلطیاں ہوئیں اور بھٹو ہھانسی چڑھ گئے۔
محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ اگر انتخابات میں کوئی مداخلت ہوئی اور اس سے ملک کو نقصان ہوا تو اس کے ذمہ دار مداخلت کرنے والے ہی ہوں گے، ہم آئین کے خلاف ہر اقدام کی مخالفت کریں گے، اس ملک کو چلانے کا واحد حل آئین ہے اور پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہونا چاہے۔
انھوں نے تجویز دی کہ جنھوں نے جمہور یت کے لیے مار کھائی ہے انھیں قومی ہیرو قرار دینا چاہیے اور 18 ویں ترمیم کو جو بھی چھیڑے گا وہ تمام صوبوں کی حق تلفی کرے گا۔
ہم حق کے لیے لڑیں گے اور ہم اس مقصد کے لیے سب کیساتھ ہیں،افتخار حسین
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سیکریٹری جنرل افتخار حسین نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ماضی میں بلوچستان میں ہماری حکومت ختم کی گئی تو کوئی ہمارے حق میں نہیں بولا، تقدس پہلے دن سے ہونا چاہیے تھا۔
انھوں نے کہا کہ ہم حق کے لیے لڑیں گے اور ہم اس مقصد کے لیے سب کے ساتھ ہیں، ہم یہ سمجھے تھے کہ پنجاب کے وزیر اعظم کو کوئی نہیں چھیڑ سکتا، اگر پنجاب کے وزیر اعظم کو ایسے نکالا جائے اور کوئی یہ کہے کہ کوئی آئے گا اور فیصلے کرے گا تو اس کا مطلب ہوا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا پہلے سے اسکرپٹڈ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مسائل پارلیمنٹ میں حل نہیں ہوں گے تو فیصلے تو کوئی اور ہی کرے گا،ہم نواز شریف کے اتحادی نہیں لیکن اس معاملے پر ان کے ساتھ ہیں، اداروں کے سربراہوں کو بھی چاہیے کہ وہ دوسرے اداروں کا بھی احترام کریں۔
رہنما اے این پی نے کہا کہ جہاں سینیٹر، ایم این اے اور ایم پی اے بکتا ہو تو ووٹر کو کیا الزام دیں، جو وفادادی نہیں نبھا سکتا اس کو کیسے دوبارہ ٹکٹ ملتا ہے اس پر حیرانی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اے این پی اے کو کسی کا خوف نہیں پارٹی کی خاطر جان بھی دینا پڑی دیں گے، ہمیں ووٹ کا تقدس چاہیے تو ووٹر کو بھی اس کا تقدس دینا ہوگا، اگر کوئی پاکستان کا مقدمہ لڑ سکتا ہے تو وہ سیاست دان ہے، اداروں کی عزت بڑھانا ہے تو تمام پارلیمنٹرینز کو عزت دینا ہوگا۔
تمام اداروں کے آپس میں اعتماد کا فقدان بڑھ گیا ہے، حاصل بزنجو
نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر حاصل بزنجو نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو مشکلات ریاست کو درپیش ہیں بدقسمتی سے اس کا بہت کم لوگ ادراک کرتے ہیں، دنیا میں لوگ اپنے مسائل اتحاد و اتفاق سے حل کرتے ہیں لیکن ہم نے اپنی سوسائٹی کو تقسیم کردیا ہے اور آج ہماری پوری سوسائٹی دست و گریبان ہے۔
انھوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ تمام اداروں کے آپس میں اعتماد کا فقدان بڑھ گیا ہے، ہمارے اداروں کو اب حقیقت پسندی اختیار کرنا چاہیے۔
سیمینار سے سینیٹر مشاہد حسین سید، سینئر وکیل یاسین آزاد اور دیگر رہنماوٗں نے بھی خطاب کیا۔












لائیو ٹی وی