عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق فیصلہ: ’باقاعدہ جعلی خبر چلوائی اور عدلیہ پر حملہ کیا گیا‘
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف اور توہین آمیز تقاریر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی ( پیمرا ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنانا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مبارک ہو، آپ پہلے آدمی ہیں جو فیصلہ پڑھ رہے ہوں گے۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام اخبارات نے خبر شائع کی کہ ہائیکورٹ نے تقریر پر پابندی عائد کردی، آپ آرٹیکل 19 اور 68 کو پڑھیں اس میں کب پابندی عائد کی گئی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر عبوری پابندی عائد
دوران سماعت جسٹس اعجار الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں کوئی شخص ہے جو یہ کہے کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی بلکہ عدالت نے آرٹیکل 19 اور 68 کے تحت پیمرا کو کام کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے پیمرا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ پیمرا نے اس معاملے پر ایکشن کیوں نہیں لیا، جس پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ 27 مارچ کو عہدے کا چارج سنبھالا اور مختلف ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیے۔
دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ حکم کچھ اور جاری کیا گیا جبکہ پورے ملک میں ڈھنڈورا کسی اور چیز کا پیٹا گیا، کسی نے باقاعدہ جعلی خبر چلوائی اور عدلیہ پر حملہ کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اتنا اچھا حکم جاری کیا اور یہ فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر ایک حملہ پہلے ہوا تھا اور ایک حملہ اب کیا گیا لیکن ہمیں سیکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں روز گالیاں نکالنے کا کیا مقصد ہے، نواز شریف اور مریم نواز دنوں کو کہیں یہاں آکر جتنی لمبی تقریریں کرنا چاہیں کریں۔
میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے دروازے پر کھڑے ہو کر عدلیہ مخالف باتیں ہوئی لیکن انشاء اللہ یہ قوم عدلیہ کی حفاظت کرے گی۔
خیال رہے کہ 17 اپریل کی صبح چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مسلم لیگ (ن) کے تا حیات قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر از خود نوٹس لیا تھا۔
چیف جسٹس کی جانب سے فیصلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) سے شکایات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ
خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف اور توہین آمیز تقاریر کو نشر کرنے پر عبوری پابندی عائد کردی تھی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس مسعود جہانگیر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر پر دائر درخواستوں کی سماعت پر فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں پیمرا کو عدلیہ مختلف تقریر سے متعلق زیر التوا درخواستوں کا 15 روز میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز سمیت دیگر کوئی بھی شخص عدلیہ مختلف تقریر کرے گا تو پیمرا اس کی نشریات کو روکے گا۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: نواز شریف کے وکیل کا بینچ کے جج پر اعتراض
عدالت عالیہ کے عبوری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پیمرا نگرانی کا عمل سخت کرے اور کوئی بھی توہین آمیز تقریر یا پروگرام نشر نہیں ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف دائر درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مریم نواز کی جانب سے جلسے، جلوسوں اور سوشل میڈیا پر عدلیہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ نواز شریف نے عدلیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر کے عوام کو اکسایا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ان رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا ہے جبکہ ان تقاریر کو نشر کرنے سے روکنے کے لیے پیمرا کچھ نہیں کررہا۔
نوٹ: 16 اپریل کو شائع کی گئی خبر میں غلطی سے یہ رپورٹ کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی عائد کردی ہے۔ ادارہ اس غلطی پر معذرت خواہ ہے۔