"ایبٹ آباد آپریشن میں امریکہ کو گراؤنڈ سپورٹ حاصل تھی"
اسلام آباد: اسامہ بن لادن کی موت کے حوالے سے قائم کیے جانے والے ایبٹ آباد کمیشن کو اس بات پر یقین ہے کہ دو مئی 2011ء کو پاکستانی علاقے میں ہونے والے فوجی آپریشن میں امریکی اسپیشل فورسز کو اندرونی حمایت حاصل تھی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے دوران وسیع نیٹ ورکس کی حمایت حاصل تھی اور صرف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ہی نہیں بلکہ اس بات کا وسیع امکان ہے کہ اور وہاں اور نیٹ ورکس بھی موجود تھے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ بات اچھی طرح سے معلوم تھی کہ سی آئی اے کے جاسوس پاکستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں 2005ء سے بھی پہلے سے موجود تھے، لیکن یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کہ پاکستانی نے اسامہ بن لادن کی تلاش کرنا بند کردی تھی کیونکہ امریکہ کو امید تھی کہ اسامہ بن لادن اب زندہ نہیں ہے۔
آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان تعلقات میں خرابی کی وجہ سے دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا۔
تاہم ایبٹ آباد کمیشن کو یقین ہے کہ بڑے پیمانے پر سی آئی اے کے جاسوس، جن میں بہت سے این جی او ورکز کی شکل میں حمایت کررہے تھے جبکہ ان جاسوسوں کی پاکستان آمد کے لیے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کی مدد سے بہت سے ویزے جاری کیے گئے تھے۔
اس قیاس کی رو سے ایبٹ آباد جانے والی گاڑیاں اس شام کو چھاپہ مار کارروائی سے قبل ایمبیسی سے نکلتے دیکھی گئیں جبکہ علاقے میں موجود لوگوں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کی وہ دورانِ آپریشن اپنے گھروں میں رہیں۔
دو مئی 2011ء کو ہونے والے اس فوجی آپریشن سے متعلق ایبٹ آباد کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارروائی سے قبل اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کے اطرف تمام درخت کاٹ دیے گئے تھے تاکہ امریکی فورسز کے ہیلی کاپٹرز کو وہاں اُتارا جاسکے اور یوں زمینی نیٹ ورکس کی حمایت سے کارروائی کی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دورانِ آپریشن سی آئی اے کا عملہ بھی اس جگہ موجود تھا جہاں اسامہ بن لادن کا قیام تھا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی جنہوں نے اس آپریشن میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، اس معاملے کی تفتیش کے سلسلے میں ان دنوں جیل میں ہیں ، تاہم ابھی تک یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ آیا انہوں نے اس آپریشن میں کوئی مدد کی تھی یا نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں