بنگلہ دیش: کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کا احتجاج مزید شدید

شائع April 12, 2018
طلبہ سرکاری ملازمتوں میں مختلف کوٹہ جات پر احتجاج کر رہے ہیں — فوٹو:  اے ایف پی
طلبہ سرکاری ملازمتوں میں مختلف کوٹہ جات پر احتجاج کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں حکومت کے خلاف ہزاروں طلبہ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، یہ حسینہ واجد کے ایک عشرے پر محیط اقتدار میں ہونے والا اب تک کا سب سے بڑااحتجاج ہے۔

واضح رہے حکومت نے سرکاری نوکریوں میں 1971 کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے کوٹہ مختص کیا ہے، اس متنازع فیصلے پر طلبہ احتجاج کر رہے ہیں، اس سے قبل بنگلہ دیش میں اتنے وسیع پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں نہیں آئے۔

اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر ڈھاکہ میں طلبہ کے ہجوم نے مشتعل ہوکر سڑکیں بلاک کر دیں، جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔

مشتعل طلبہ کی بڑی تعداد ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی داخل ہوئی۔

یونیورسٹی میں پولیس کی نفری تعینات کردی گئی تھی، جہاں حالیہ جھڑپوں میں آنسوگیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں لگنے سے 100 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 71 کی جنگ کے متاثرین کیلئے کوٹہ مختص کرنے پر ڈھاکہ میں پرتشدد مظاہرے

خیال رہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش کی سب سے معتبر درس گاہ مانی جاتی ہے، صورتحال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈھاکہ پولیس کے ایک افسر نے کہا کہ یونیورسٹی میں 5ہزار سے زائد مظاہرین موجود داخل ہوئے۔

ڈھاکہ کے شمال مغربی علاقے سوار میں موجود پولیس کا کہنا تھا کہ تقریبا 7ہزار طلبہ دارالحکومت کو دیگر شہروں سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر نکل آئے، جس سے افراتفری پھیل گئی۔

پولیس انسپکٹر عبدالاول کے مطابق طلبہ نے سڑکیں مکمل طور پر بند کردی تھیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں 4ہزار کے قریب طلبہ نے سڑکوں سمیت ریلوے ٹریک کو بند کر دیا جبکہ دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے، جس میں کھُلنا، بریسل، کُشتیاں، کومیلا، میمن سنگھ اورگوپل گنج شامل ہیں۔

پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم حسینہ واجد نے کہا کہ انہوں نے معاملے کے حل کے لیے کابینہ کو کوٹہ نظام پر نظر ثانی کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

نجی نشریاتی ادارے این ٹی وی کے مطابق اپنے خطاب میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ عوام کو کیوں مشکل میں ڈالا جائے۔

احتجاج کی مذمت کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری نوکریوں کے گزشتہ 3 امتحانات میں 70فیصد نوکریاں میرٹ پر دی گئیں ہیں۔

اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بدھ کے روز مظاہرے اس وقت شدت اختیار کرگئے تھے، جب حکمران جماعت کے ایک رہنما اور طلبہ لیڈر کے درمیان محاذ آرائی کی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش : اپوزیشن رہنما سے متعلق عدالتی فیصلے سے قبل احتجاج پر پابندی

مظاہرین اعلی سرکاری عہدوں میں اقلیتی گروہ اور معذور افراد کے کوٹے کے علاوہ ایک الگ کوٹہ بنائے جانے پر مشتعل ہیں، جس کا اثر دیگر پر پڑے گا۔

حکومت کی جانب سے خاص طور پر 71ء کی جنگ کے متاثرین کے لیے 30 فیصد کوٹہ مختص کیے جانے پر اشتعال پایا جاتا ہے۔

حکومت نے کوٹہ نظام پر نظر ثانی کی یقین دہانی کروائی ہے جس پر مظاہرین تقسیم ہو گئے ہیں ایک گروہ نے حکومت کا یہ بیان مسترد، جب کہ دوسرے گروہ نے قبول کر لیا ہے۔

حکومتی موقف کی تائید کرنے والے طلبہ کے ایک احتجاجی گروہ نے مظاہرے ملتوی کر دیے ہیں جبکہ دیگر کی جانب سے احتجاج جاری ہے۔

مظاہرین کے ایک رہنما نور محمد کا کہنا تھا کہ سرکاری نوکریوں کے لیے کوٹہ مختص کر کےامتیازی سلوک برتا گیا ہے، ہم سب کے لیے یکساں مواقع چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ کوٹہ سسٹم کے سبب اپنی پسند کی سرکاری نوکری سے محروم ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد نے اس سے قبل کوٹہ ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔


یہ خبر 12 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024