• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

لوڈ شیڈنگ میں اضافہ: وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیر اعظم سے مدد کی اپیل کردی

شائع April 10, 2018

کراچی میں موسم گرما کے آتے ہی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوگیا، ملک کے صنعتی حب کے بعض علاقوں میں 12، 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔

کراچی میں لوڈ شیڈنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں عزیز آباد، حسین آباد، گلشن شمیم، گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، صدر، کلفٹن، لانڈھی، کورنگی، ملیر، نیوکراچی، نارتھ کراچی، اولڈ سٹی ایریا اور گلستان جوہر شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلشن اقبال بلاک 6، 7 اور گرد و نواح کے رہائشیوں کی جانب سے شکایات درج کرانے پر کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) نے انہیں بتایا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کی جانب سے گیس کی فراہمی میں کمی کے باعث لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔

مقامیوں نے شکایت کی ان کے گھروں پر 10، 10 گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے جبکہ کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ صرف ایک یا 2 گھنٹے کے لیے کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کو تقریباً 90 ملین کیوبک فیٹ پر ڈے (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس فراہم کی جارہی ہے جبکہ معاشی تعاون کمیٹی کی جانب سے ان کے لیے 276 ایم ایم سی ایف ڈی مختص کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں لوڈشیڈنگ: کے الیکٹرک، سوئی سدرن کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 500 میگا واٹ کے پاور پلانٹ کا انحصار گیس پر ہے اور گیس کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے پاور پلانٹس آپریشنل نہیں جس کی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال پیش آیا ہے۔

دوسری جانب ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایس ایس جی سی اور کے ای کے تنازع کے حل کے لیے وزیر اعظم کی مدد طلب کرلی ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ 10 دنوں کے دوران وزیر اعظم کو 2 خط لکھ چکے ہیں جس میں شہریوں کو ہنگامی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ سے نجات کی التجا کی گئی تھی۔

مراد علی شاہ کی جانب سے بھیجے جانے والے خط میں کہا گیا تھا کہ کراچی کی عوام اور یہاں قائم صنعتوں کو دن میں 10 گھنٹے سے زائد تک بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے طالب علم بھی متاثر ہورہے ہیں جن میں خصوصی طور پر میٹرک کے بورڈ کا امتحان دینے والے بچے شامل ہیں۔

انہوں نے ایسی صورت حال میں حالات خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔

وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ ایس ایس جی سی نے عوامی مفاد میں گیس کی فراہمی کو کے الیکٹرک کے سیکیورٹی ڈپوزٹ ادا کرنے اور باقی ادائیگیوں کے لیے گیس سپلائی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ دوسری جانب کے ای نے ایس ایس جی سی کی شرائط پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لوڈ شیڈنگ سے بچانے والے سولر یو پی ایس سسٹم کی قیمت کیا ہے؟

خط میں کہا گیا کہ ایس ایس جی سی نے ہنگامی بورڈ کے اجلاس میں 120 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے ای کی جانب سے 6 ارب روپے کے سیکیورٹی ڈپازٹ جمع کرانے کے بعد فراہم کرنے کی منظوری دی ہے جو تقریباً 3 ماہ کے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سپلائی کے بل کے برابر ہے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک نے مارک اپ اور لیٹ پیمنٹ سرچارج کو ایک گھمبیر مسئلہ قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے ادائیگی کیے جانے تک اسے روکنے کا کہا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ اس معاملے کے حل کے لیے ایک کمیٹی کو تشکیل دیا جائے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندے بھی شامل ہوں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 11, 2018 05:05pm
کے الیکٹرک کراچی میں لوڈشیڈنگ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں، کے الیکٹرک نہ تو سوئی سدرن سےجامع معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے نہ ہی عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے پر آمادہ، اس کا ایک ہی حربہ ہے کہ شنگھائی الیکٹرک کے حوالے کرنے سے قبل عوام سے جتنی رقم نکال سکتے ہیں نکال لی جائے۔ بجلی کا کوئی بحران نہیں ہوگا اگر اس کا استعمال کفایت شعاری سے کیا جائے، کے الیکڑک بجلی ضائع کرنے والوں کو تو بجلی فی الفور فراہم کردیتی ہیں، کراچی بھر میں ہٹائے گئے بل بورڈز نئے طریقوں سے دیوہیکل دیواریں تعمیر کرکے ( جس سے ہوا اور روشنی بھی بند ہوجاتی ہے) اور بلڈنگوں پر بڑے بڑے پوسٹر لگا کر دوبارہ لگا دیے گئے ہیں، تعمیر کے دوسرے ہی دن ان کو ہزاروں واٹ کے درجنوں بلب لگانے کے لیے بجلی دے دی جاتی ہے۔ اسی طرح بینکوں (خاص طور پر نام نہاد اسلامی بینکوں) میں بھی رات کو بڑے بڑے بورڈ لگا کر بجلی ضائع کی جارہی ہیں، بجلی ضائع کرنا قانوناً جرم ہے، مراد علی شاہ نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی پہلا حکم شادی ہال اور دکانیں جلد بند کرنے کا دیا تھا مگر اس حکم پر کوئی عملدرآمد نہ ہوسکا، بجلی کی کفایت شعاری بجلی بحران کا حل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024