• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

8 سالہ بچی کو ’ریپ‘ کے بعد زندہ جلادیا گیا

شائع April 10, 2018 اپ ڈیٹ April 11, 2018

ساہیوال: صوبہ پنجاب کے علاقے چیچہ وطنی میں مبینہ طور پر ریپ کے بعد زندہ جلائی جانے والی 8 سالہ بچی کو سپردخاک کردیا گیا۔

خیال رہے کہ بچی کے ساتھ مبینہ ریپ اور زندہ جلائے جانے کا یہ لرزہ خیز واقعہ چیچہ وطنی کے نواحی علاقے محمد آباد کے وارڈ نمبر 17 میں اس وقت پیش آیا جب 8 اپریل کو 8 سالہ نور فاطمہ گھر سے ٹافیاں لینے گئی تھی لیکن واپس نہیں آئی۔

گھر والوں کی جانب سے بچی کی گمشدگی پر اس کی تلاش کا آغاز کیا گیا تو 2 سے 3 گھنٹے بعد گھر کے قریب سے بچی جھلسی ہوئی اور بے ہوشی کی حالت میں ملی، جسے طبی امداد کے لیے فوری طور پر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال لے جایا گیا۔

تاہم 80 سے 90 فیصد جسم جھلس جانے کے باعث بچی کو تشویشناک حالت میں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئی۔

مزید پڑھیں: معذور بیٹی کا ریپ، بااثر افراد کے دباؤ پر باپ نے ملزم کو معاف کر دیا

پولیس کی جانب سے قتل کی دفعات کے تحت واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے لیکن اس میں ریپ کی دفعات شامل نہیں کی گئی جبکہ بچی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیا گیا۔

دوسری جانب مبینہ طور پر ریپ کے بعد زندہ جلائی گئی بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کی 8 سالہ ننھی کلی نور فاطمہ کا کیا قصور تھا؟ اسے کیوں اس درندگی کا نشانہ بنایا گیا؟ ہماری چیف جسٹس، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے کہ وہ ہمیں انصاف فراہم کریں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

اس واقعے پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے نوٹس لیا گیا تھا ملزمان کی جلد گرفتاری کے احکامات دیے گئے تھے۔

پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کرلیا

ادھر ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ساہیوال محمد عاطف اکرام کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر ریپ کے بعد جھلس کر جاں بحق ہونے والی بچی نور فاطمہ کے قتل میں ملوث ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاچکا ہے جبکہ ایک مشکوک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور پولیس نے تمام شواہد اکھٹے کرلیے ہیں جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد مزید حقائق سامنے آنے پر کارروائی کی جائے گی۔

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ بچی کے کپڑوں اور جوتوں کے نمونے پنجاب فرانزک لیبارٹری میں تجزیے کے لیے بھیجوائے جارہے ہیں اور فرانزک رپورٹ آنے کے بعد 376 کی دفعات کو مقدمے میں شامل کرلیا جائے گا۔

شہر میں سوگ کی فضا

علاوہ ازیں اس لرزہ خیز واقعے پر شہر کی فضا سوگوار ہے اور تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز سمیت بار ایسوسی ایشن میں مکمل شٹر ڈاؤن ہے۔

انجمن تاجر اتحاد کا کہنا تھا کہ چیچہ وطنی میں اس درندگی کے واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور دکھ کی اس گھڑی میں تاجر برادری متاثرہ خاندان کے ساتھ ہے اور معصوم بچی کو انصاف دلانے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک بھر میں ریپ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کئی معصوم بچوں کو ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کیا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جہلم میں 8 سالہ بچی کا ریپ کرنے والا ملزم گرفتار

رواں ماہ کے آغاز میں ہی پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں 7 سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کردیا تھا اور بچی کی لاش کھیتوں میں سے ملی تھی۔

اس واقعے کے بعد اہل علاقہ کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا تھا جبکہ بعد ازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس واقعے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ جنوری میں ضلع قصور میں پیش آیا تھا، جہاں 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

5 روز بعد قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، جس کے بعد اس معاملے پر سخت احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس دوران 2 افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔

اس واقعے پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا تھا اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی ملزم کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی، جس کے بعد ایک ملزم عمران کو گرفتار کرلیا تھا۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور 17 فروری 2018 کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کے خلاف 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

SHARMINDA Apr 10, 2018 01:17pm
Notices have become routine. No body interested in addressing route cause. Everyday there's news about same barbaric acts. We have 300+ parliamentarians in NA and more than 1000 in PAs yet no solid step towards solving this issue.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024