• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

کیا سعودی ولی عہد اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں؟

شائع April 9, 2018

‘صرف موت ہی مجھے حکمرانی سے بے دخل کرسکتی ہے۔’ امریکی دورے کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ اعلان اگلے 2 سے 3 عشروں کے دوران سعودی عرب، مشرقِ وسطیٰ اور عالمی اسٹیج پر ترتیب پانے والے منظر کی ایک جھلک ہے۔ سعودی عرب کی بادشاہت باضابطہ سنبھالنے سے پہلے ولی عہد کا طویل سفارتی دورہ اندرون اور بیرون ملک ایک پیغام بھی ہے۔

سعودی عرب پر کم از کم 25 سال یا اس سے زیادہ حکمرانی کا خواب دیکھنے والے محمد بن سلمان نے مصر سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور برطانیہ سے ہوتے ہوئے امریکا پہنچے، اس کے بعد فرانس کا 2 روزہ دورہ کیا اور پھر اسپین پہنچیں گے۔

شہزادہ محمد بن سلمان مملکت سے طویل غیر حاضری کے ذریعے اندرونِ ملک یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ معاملات ان کے مکمل کنٹرول میں ہیں، اہم شہزادوں کی گرفتاریوں اور رہائی کے بعد انہیں بغاوت یا کسی کی سرکشی کا کوئی ڈر خوف نہیں۔ دورے کا دوسرا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب طویل عرصے کے لیے معاملات انہی سے طے کرنے ہوں گے۔

محمد بن سلمان نے طویل سفارتی دورے سے پہلے اندورونِ ملک اقتدار پر نہ صرف گرفت مضبوط کی بلکہ ایک انقلابی شہزادے کا روپ بھی دھارا۔ محمد بن سلمان کے امریکی میڈیا کے ساتھ انٹرویوز دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر چھائے رہے، جیسے اسرائیل کو بالواسطہ تسلیم کرنے کا اعلان، ملک کو وہاب ازم سے نکال کر اسلام کا اصل رخ دکھانے کے عزائم، ایرانی صدر کو ہٹلر سے بھی بدتر قرار دینا، ایران کے ایٹم بم بنانے کی صورت میں سعودی عرب کو بھی ایٹمی اسلحہ سے لیس کرنے کا اعلان بڑی خبریں ضرور تھیں لیکن شاید سفارتی اور بین الاقوامی معاملات پر نظر رکھنے والوں کے لیے زیادہ نئی بھی نہیں تھیں۔

مزید پڑھیے: سعودی شاہی خاندان کے اندرونی جھگڑوں کی داستان

خود کو کامیاب سودے باز اور معیشت کا چیمپیئن دکھانے کی کوشش میں امریکی صدر نے محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے دوران اسلحے کی ڈیل کی فہرست لہراتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے لیے یہ معاہدے تو مونگ پھلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

اس کے بعد اوہائیو میں انفراسٹرکچر سے متعلق خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ہم شام سے جلد از جلد نکلنا چاہتے ہیں کیوں کہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں سے سوائے موت اور تباہی کے کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم شام کے معاملے پر اتحادیوں سے بھی مشورہ کریں گے، اگر سعودی چاہتے ہیں کہ ہم شام سے نہ نکلیں تو انہیں اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ شام کا تیل اخراجات کی مد میں رکھ لو، ہمیں تیل نہیں چاہیے، وہ تو داعش پہلے ہی بیچ چکی۔

امریکی صدر خود کو کامیاب بزنس مین ثابت کر رہے تھے تو شہزادہ محمد بن سلمان بھی شاپنگ ٹرپ پر نہیں تھے۔ ان کا مقصد بھی سعودی معیشت کو سہارا دینا اور یمن میں چھیڑی گئی جنگ کے لیے مدد لینا تھا۔ اس کے علاوہ علاقائی حریف ایران کو عراق، شام، لبنان سمیت دیگر ملکوں میں پراکسی وار میں نیچا دکھانے کے لیے اسے بے دست و پا کرنا اہم مقصد تھا۔

ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں سے طے پانے والا معاہدہ جولائی میں امریکی صدر کو دوبارہ توثیق کے لیے پیش کیا جانا ہے۔ اگر امریکی صدر توثیق نہیں کرتے تو ایران کو اس معاہدے کے نتیجے میں معاشی فوائد حاصل نہیں ہوپائیں گے اور پراکسی وارز کے لیے درکار فنڈز پہلے سے کمزور ہوتی معیشت پر بوجھ بن سکتے ہیں۔

ولی عہد محمد بن سلمان نے ایران کا کیس کمزور کرنے اور خطے میں اسے بُرائی کا محور منوانے کے لیے اس کے ازلی دشمن اسرائیل کو رعایتیں دینے پر بھی آمادگی دکھائی۔ اگرچہ شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر رہنے کا حق دینا نیا مؤقف نہیں، تاہم اس مؤقف کو دورہ واشنگٹن کے دوران بار بار دہرانا اور ایرانی سپریم لیڈر کا ہٹلر سے موازنہ اہمیت کا حامل ہے۔

امریکا کے ساتھ اسلحے کی خریداری کے معاہدے شہزادہ محمد بن سلمان کی طویل مدتی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اوباما دور میں ایران کے معاملے پر پیدا ہونے والی کشیدگی سے سعودی عرب نے سبق سیکھا ہے اور اربوں ڈالر اسلحے کی خریداری کے معاہدے دراصل ٹرمپ کے بعد آنے والے صدور کو بھی سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کی پالیسی پر مجبور رکھنے کے لیے اہم ہتھیار ہیں۔

مزید پڑھیے: سعودی عرب کا دنیا کو ایک اور سرپرائز، آخر ہو کیا رہا ہے؟

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسلحے کی خریداری کے معاہدے عشروں پر محیط ہوتے ہیں۔ اسلحے کی فراہمی میں کئی سال لگتے ہیں تو اس کے بعد فالو اپ معاہدوں میں تربیت، اسپیئر پارٹس، مرمت اور اپ گریڈیشن بھی برسوں پر محیط کام ہے۔ ٹرمپ کے بعد آنے والے کئی صدور سعودی عرب کے حوالے سے اوباما کی پالیسی کی طرف واپس جانا بھی چاہیں گے تو یہ معاہدے ان کی راہ میں رکاوٹ ضرور بنیں گے اور انہیں سعودی عرب سے حاصل ہونے والے کاروباری فوائد سامنے رکھ کر پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی۔ امریکا کے ساتھ معاہدے شہزادہ محمد بن سلمان کی اگلے کئی برسوں کی خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی ہیں۔

جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہے تو ایسے کئی بیانات ماضی میں بھی آچکے ہیں۔ فلسطینی ریاست کا قیام صدر ٹرمپ کی پالیسی اور ترجیحات میں شامل نہیں۔ محمد بن سلمان بھی اس سے بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں اس پر کوئی فکرمندی بھی نہیں۔

اگر محمد بن سلمان اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں تو اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے امریکا کے ساتھ معاہدوں کو یقینی بنانا۔ محمد بن سلمان کو علم ہے کہ 40 سال پہلے سعودی عرب کی اواکس طیاروں کی ڈیل کو اسرائیل واشنگٹن میں اپنی لابی کے ذریعے تقریباً سبوتاژ کرچکا ہے۔ صدر رونالڈ ریگن کو مداخلت کرکے کانگریس سے وہ ڈیل منظور کروانی پڑی تھی۔ اس لیے محمد بن سلمان اپنی طویل مدتی پالیسی کو ابتداء میں ہی خطرے سے دوچار کرنے کے موڈ میں نہیں۔

اسرائیل کے لیے خوش کن بیانات کا ایک اور مقصد ایران کو دھمکانا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب خطے میں ایران کے عزائم کے حوالے سے یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں کے مذاکرات کے دوران بھی دونوں ہم آواز تھے اور شام کے معاملے میں بھی سعودی عرب اور اسرائیل یکساں موقف رکھتے ہیں۔

سعودی عرب عالم اسلام کی سیادت چھن جانے سے بھی خوفزدہ ہے اور شام کی صورتِ حال پر اسلامی دنیا کی قیادت کے 2 مزید دعویدار تُرکی اور ایران اپنے اپنے مفادات کی خاطر ایک صفحے پر ہیں۔

ایران کے اثر و رسوخ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سعودی عرب اور اسرائیل کا تعاون سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے سعودی عرب اور اسرائیل نے مصری حکام کی میزبانی میں مذاکرات بھی کیے۔ ہندوستانی ایئرلائن کو اسرائیل کے لیے سعودی فضائی راستہ دینا بھی ریاض اور یروشلم کی قربت کا اظہار سمجھا جا رہا ہے۔

اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سعودی عرب جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ علاقائی اثر و رسوخ کی خاطر ایران کے خلاف مؤثر انٹیلی جنس تعاون بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ دونوں کی ضرورت ہے لیکن سعودی عرب فلسطین کارڈ کو ہاتھ سے جانے دے گا، یہ سوچنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔

جہاں تک وہاب ازم کے بارے میں ولی عہد کے بیان کا معاملہ ہے، وہ بھی نیا نہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کو 'ماڈریٹ اسلام' کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو 1979ء میں ایرانی انقلاب سے پہلے سعودی عرب میں موجود تھا۔

ولی عہد کا یہ خطاب سرمایہ کاروں سے تھا اور اس کے مقاصد بھی معاشی تھے، ورنہ سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی پالیسیاں 1979ء میں تبدیل نہیں ہوئیں، بلکہ سعودی عرب 1924ء سے ہی قدامت پسند ہے۔ 1960ء میں جب شاہ فیصل نے ریاض میں لڑکیوں کا پہلا اسکول کھولا اور 1965ء میں جب پہلا ٹی وی اسٹیشن قائم ہوا تب بھی قدامت پسند علماء نے مزاحمت کی تھی۔

مزید پڑھیے: سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی

محمد بن سلمان علماء کی مزاحمت کامیابی سے کچلے جانے کو مثال بنا کر ہی نئی پالیسیاں بنا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس بار پھر ریاست کامیاب رہے گی۔ لیکن چند مبصرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کی سماجی تبدیلی کی پالیسی کے خلاف مزاحمت موجود ہے اور اگر ولی عہد نے تبدیلی کی رفتار مناسب نہ رکھی اور جلد بازی پر اتر آئے تو ان کی پالیسیاں ریاست اور شاہی خاندان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی مغرب میں جس قدر ستائش کی جا رہی ہے، اسی قدر تحفظات بھی موجود ہیں۔ مغربی مبصرین کی بڑی تعداد ان پالیسیوں کو کمزور سعودی معیشت سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سماجی اور سیاسی تبدیلیاں صرف سرمایہ کاروں کو ایک جدید سعودی عرب دکھانے کا ڈھونگ ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان جدید اسلام کا پرچار کر رہے ہیں، لیکن سعودی عرب کا یہ جدید اسلام کیسا ہوگا اس کا ابھی کوئی خاکہ سامنے نہیں آیا۔ ولی عہد کا یہ بیان دراصل مغرب کو یہ یقین دہانی ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس کے علاوہ اہم مسئلہ امریکا میں 2016ء میں منظور ہونے والا قانون جاسٹا ہے، جو 11 ستمبر کے متاثرہ امریکی شہریوں کو حق دیتا ہے کہ وہ سعودی حکومت کے خلاف ہرجانے کے دعوے کرسکیں۔

امریکی قانون جاسٹا سعودی حکومت کے لیے بہت بڑا شکنجہ ہے، جو سعودی معاشی مفادات کو نہ صرف ہرجانے کے دعوؤں سے زک پہنچا سکتا ہے بلکہ امریکا میں براہِ راست کاروباری مفادات کے لیے بھی خطرہ ہے۔

اس کی مثال سعودی عرب کی سرکاری تیل و گیس کمپنی سعودی ارامکو کے 5 فیصد شیئرز کی عام فروخت کا منصوبہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ارامکو کے 5 فیصد شیئرز بیچنے کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ یہ شیئرز نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے کیونکہ لندن اور ہانگ کانگ کی مارکیٹیں بھی ارامکو کے شیئرز کے لیے بے تاب ہیں۔

ولی عہد کے دورہ واشنگٹن میں ارامکو کے شیئرز کے حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا، حالانکہ یہ منصوبہ ولی عہد کے معاشی وژن میں سب سے اہم ہے۔ اس کی وجہ ارامکو کے وکلاء کے تحفظات ہیں، جو جاسٹا کے حوالے سے ہی ہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmad Apr 10, 2018 09:35am
Well written article.
SHARMINDA Apr 10, 2018 10:08am
During Saudi prince visit, several incidents happened where Muslims were killed in Syria, Palestine, Kashmir & Afghanistan. No reaction from prince means he only cares about his country and has no interest in broader Muslim world. Saudia has started loosing it's respect and image in Muslim world.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024