'میانمار، پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں'
یانگون: اقوام متحدہ کے سینئر ترین حکام کا کہنا ہے کہ میانمار روہنگیا پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے تیار نہیں۔
خیال رہے کہ میانمار پر نسل کشی کے الزام کے بعد وہاں قیام پذیر تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش منتقل ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے انسانی امور ارسولا مولر نے میانمار کا 6 روزہ دورہ کرنے کے بعد کہا کہ ’میں نے لوگوں سے سنا اور دیکھا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے لیے کسی قسم کی صحت کی سہولیات دستیاب نہیں اور نہ ہی حکومت حفاظت کی ذمہ داری لے رہی ہے جس کی وجہ سے پناہ گزینوں کی واپسی اس وقت ساز گار نہیں‘۔
میانمار حکومت کی جانب سے ابھی تک ارسولا مولر کے ریمارکس پر رد عمل سامنے نہیں آیا۔
مزید پڑھیں: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے، اقوام متحدہ
واضح رہے کہ میانمار حکومت نے اس سے قبل بنگلہ دیش کے ساتھ معاہدے میں وعدہ کیا تھا کہ پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے وہ بہتر اقدامات کرے گا۔
میانمار نے تاحال چند سو روہنگیا مسلمانوں کی ممکنہ بحالی کے لیے شناخت کی ہے۔
میانمار حکام کا کہنا تھا کہ ’یہ گروہ پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے پہلا بیچ ہوگا اور ان کے لیے جب مناسب ہو وہ میانمار واپس آسکتے ہیں‘۔
ارسولا مولر کو میانمار کی جانب سے رخائن ریاست تک کی رسائی دی گئی تھی جہاں انہوں نے فوج کے زیر اثر وزیر دفاع اور سرحدی امور کے علاوہ آنگ سان سوچی اور دیگر شہری حکام سے ملاقاتیں کیں۔
میانمار کے سب سے بڑے شہر یانگون میں انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے میانمار حکام سے تشدد کو ختم کرنے کی التجا کی اور کہا کہ بنگلہ دیش سے پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ اور با وقار طور پر کی جانی چاہیے‘۔
میانمار کا کہنا تھا کہ کہ ان کی افواج مسلم ’دہشت گردوں‘ کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف
یاد رہے کہ بنگلہ دیش حکام نے بھی میانمار کی جانب سے روہنگیا افراد کی بحالی پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا تھا۔
میانمار اور بنگلہ دیش کی جانب سے گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں معاہدہ طے پایا تھا کہ میانمار کی حکومت پناہ گزینوں کو رضاکارانہ طور پر 2 سال میں بحال کردے گی۔
یاد رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں گزشتہ برس فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔
میانمار کی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کی تھی جہاں ان کے حالات غذائی قلت کے باعث ابتر ہوتھے تاہم ترکی اور اقوام متحدہ کی جانب سے اقدامات کئے گئے تھے اور مزید مدد کی اپیل کی گئی تھی۔
یہ خبر 9 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی