سی پیک میں زراعت کے منصوبوں کی عدم موجودگی پر وزراء کے تحفظات
اسلام آباد: وفاقی کابینہ میں شامل کئی ارکان نے اربوں ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں زراعت کے شعبے کو مکمل نظر انداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان تحفظات کا اظہار وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر بوسن اور وزیر نجکاری دانیال عزیز نے سی پیک منصوبوں سے متعلق کابینہ کے اجلاس میں کیا۔
اس بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ کابینہ اجلاس میں ارکان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس بات کو تسلیم کیا کہ سی پیک کے پہلے حصے میں زراعت کو شامل نہیں کیا گیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ شعبہ پہلے ہی توانائی کے جاری منصوبوں سے فائدہ حاصل کررہا ہے۔
مزید پڑھیں: سی پیک کے فائدے پاکستان، چین کیلئے یکساں ہیں، احسن اقبال
احسن اقبال نے تفیصلات بتاتے ہوئے بتایا کہ ٹیوب ویلز کی ڈیزل سے شمسی توانائی اور الیکٹرک پاور پر منتقلی سے ایندھن کی قیمت میں کمی ہوئی اور اس سے کسانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ چین نے دیگر منصوبوں کو شروع کرنے سے پہلے توانائی کی صورتحال اور پاکستان میں انفرااسٹرکچر کی بہتری پر توجہ دی اور زراعت کو سی پیک کے دوسرے حصے میں شامل کیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کے نقطہ نظر کی ایک اور وزیر نے توثیق کی اور کہا کہ زراعت کے شعبے کو پہلے ہی سی پیک سے فائدہ حاصل ہورہا ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سی پیک سمیت توانائی کے شعبوں کے مختلف منصوبوں، صنعتی تعاون اور گوادر کی ترقی سے متعلق مختلف منصوبوں پر بریفنگ دی گئی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس بریفنگ میں اصل توجہ توانائی کے منصوبوں اور گوادر کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر دی گئی، ساتھ ہی ملک کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر، سڑکوں کی بہتری اور ریلوے لنک کی تعمیر پر بھی غور کیا گیا۔
اس حوالے سے سرکاری بیان کے مطابق کابینہ کے ارکان کو بتایا گیا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں بڑے حصوں میں توانائی کے شعبے اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی گئی اور مختلف توانائی کے منصوبے سی پیک میں شامل کیے گئے، جن کی تکمیل کے بعد نیشنل گرڈ میں 17 ہزار میگاواٹ بجلی شامل ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک میں پاکستانیوں کے لیے بھی سرمایہ کاری کرنے کا موقع
کابینہ کے ارکان کو بتایا گیا کہ سی پیک سے سماجی اور معاشی ترقی کو خاص طور پر فائدہ ہوگا جبکہ ملک کے کم ترقی والے علاقے بھی اس سے مستفید ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سی پیک منصوبوں سے ملکی معیشت مضبوط اور ترقی کی شرح میں اضافے میں مدد ملے گی۔
کابینہ کے اجلاس میں بار کونسل اور ایسوسی ایشنز کو بلاتفریق گرانٹ جاری کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا، اس بارے میں کابینہ کے ارکان نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے لاء باڈیز میں ممبرشپ کی تعداد کے تحت گرانٹ کی تقسیم کے حوالے سے ایک لاحہ عمل تیار کیا تھا۔
اس موقع پر اجلاس میں قومی شناختی کارڈ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے شناختی کارڈ کی فیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنائی گئی سمری کا بھی جائزہ لیا گیا اور کابینہ کے ارکان کے درمیان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔