• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

دیامر بھاشا ڈیم: 14 ہزار سے زائد ایکڑ زمین واپڈا کے سپرد

شائع April 2, 2018 اپ ڈیٹ October 8, 2018

لاہور: 4500 میگا واٹ کے دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کی تکمیل کے لیے بالآخر 18ہزار 357 ایکڑ نجی زمین سے 14 ہزار 325 ایکڑ کا حصہ پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے حوالے کردیا گیا۔

دیامر کے محل وقوع کی بات کی جائے تو چلاس سے 40 کلو میٹر نیچے کی جانب گلگت بلتستان میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر آف دیامر ہے، جہاں 32 دیہاتوں میں 4 ہزار 266 گھر ہیں، جن میں 30 ہزار 350 افراد مقیم ہیں۔

اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 37 ہزار 419 ایکڑ زمین درکار تھی، جس میں کاشت کاری، بنجر اور دیگر استعمال کے لیے 19 ہزار 62 ایکڑ سرکاری اور 18 ہزار 357 نجی زمین شامل ہے، تاہم اس منصوبے سے حکومت، کمیونٹی اور کاروباری افراد کی بڑی تعداد متاثر ہوگی۔

مزید پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم کیلئے زمین خریدنے کی منظوری

اس منصوبے کے حوالے سے واپڈا کے جنرل منیجر (انسانی وسائل کی ترقی، زمین کے حصول اور آباد کاری) بریگیڈیر (ر) شعیب تقی کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کل زمین کا 85 فیصد حصہ حاصل کرلیا ہے اور ذخائر کے لیے تقریباً 95 فیصد زمین درکار تھی اور یہ اس منصوبے کے لیے ضروری تھا، تاہم ایک سال کے دوران اس زمین کے حصول کو واپڈا کا ایک بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے تین دیہاتوں کے مجوزہ ماڈل، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی متنازع سرحد پر زمین کے حصہ کا حصول ایک اہم مسئلہ ہے۔

تاہم ان تین مجوزہ دیہاتوں کے درمیان ہرپن داس کے لیے 687 ایکڑز زمین کا حصہ پہلے ہی حاصل کیا جاچکا، جہاں واپڈا نے متاثر ہونے والے افراد کے لیے کمیونٹی انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا ہے۔

اسی تناظر میں اس منصوبے کی رفتار کو متاثر کرنے والے مخصوص مسائل کے باعث مجوزہ گاؤں کے لیے دوسری دو سائٹس پر زمین ابھی تک حاصل نہیں کی جاسکی۔

تاہم کمیونٹی کے بنیادی ڈھانچے، سماجی خدمات جیسے اسکول، صحت کی سہولیات، سڑکوں کی تعمیر، مساجد، کمیونٹی سینٹر، بازار مکمل کیے جاچکے جبکہ 1350 رہائشی پلاٹوں کا لے آؤٹ پلان بھی تیار کیا جاچکا ہے۔

اس حوالے سے بریگیڈیر (ر) شعیب تقی کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے سے خان باری، تھور، ہدر، اور چلاس کے 2 ہزار 937 خاندان متاثر ہوئے ہیں، جو ہرپن داس میں رہنا چاہتے ہیں لیکن اس صوبے کی گنجائش 1350 رہائشی پلاٹس تک ہے، لہٰذا ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ ان افراد کی ہرپن داس میں آباد کاری دیگر مجوزہ 2 گاؤں تھک داس اور ساگاچل داس کی تکمیل سے جوڑی جائے۔

یاد رہے کہ تھک داس کی جگہ کا تعین 2009 میں ضلعی انتظامیہ، واپڈا حکام اور دیامر بھاشا ڈیم کے کنسٹلٹنس نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

تھک داس میں ماڈل گاؤں کے لیے 1522 ایکڑ زمین درکار تھی جو ابھی تک حاصل نہیں کی جاسکی اور اس جگہ کے مکین ماڈل گاؤں کی تعمیر کے لیے زمین دینے کو تیار نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: راہداری منصوبہ: دیامر بھاشا ڈیم شامل کرنے کی تجویز

دوسرے ماڈل گاؤں سگاچل داس کی بات کی جائے تو یہ چلاس ٹاؤن سے 80 کلو میٹر دو ہے اور یہ حصہ گوہر آباد کے مکینوں کی سامراجی زمین ہے اور اس کا کل حصہ 526 ایکڑ ہے، تاہم یہاں کے مکینوں نے متاثرہ افراد کو ماڈل گاؤں میں رہنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

واپڈا کے جنرل منیجر نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہمیں سرکاری اور نجی دونوں زمینوں کا بڑا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن ماڈل گاؤں اور ذخائر کے لیے بقیہ زمین کا حصول ابھی باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زمین کا حصول حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ہم ان کے ساتھ برابر کا تعاون کرر ہے ہیں لیکن اگر قلیل مدت میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اس منصوبے میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔


یہ خبر 02 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024