• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں ٹیک اوور کے چکر میں ہوں؟‘

شائع March 31, 2018

کراچی: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے متفرق کیسز کی سماعت کے ریمارکس دیے ہیں کہ میں مداخلت کا تصور نہیں رکھتا لیکن مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے، جو کچھ کر رہا ہوں شہریوں کی سہولت کے لیے کررہا ہوں، ریٹائرمنٹ کے بعد میرا نام بھی نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نکاسی آب کے منصوبوں کی ابتر صورتحال سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت میں موجود سینئر صحافی مظہر عباس اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔

چیف جسٹس نے مظہر عباس سے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں ٹیک اوور کے چکر میں ہوں، جس پر سینئر صحافی نے کہا جو کام حکومت کو کرنے چاہیے تھے وہ آپ کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا جو کچھ بھی کر رہا ہو شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے کر رہا ہو، سارا شہر کمرشل بنادیا ہے، رہائشی علاقوں میں سکون کے لیے کچھ نہیں۔

اس دوران مظہر عباس نے کہا کہ کارساز کی آدھی سڑک نیوی نے بند کر رکھی ہے، سروس روڈ بحال ہوجائیں تو ٹریفک کا نظام کچھ بہتر ہوجائیگا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سڑک کا جائزہ لینے کے بعد کھلوانے کا حکم دیتا ہوں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ شہر میں پیش رفت ہورہی ہے، شہر سے کچرا بھی اٹھ رہا ہے، ساحل سمندر بھی اب صاف ہورہا ہے جبکہ نالوں کی صفائی کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے، 2 ماہ میں کچھ نہ کچھ مزید بہتری لائوں گا اور اگر سندھ کے مسائل کے لئے روز بھی بیٹھنا پڑے تو بیٹھوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے پوسٹرز شہر میں لگانے والے ڈاکٹرز فوری انہیں ہٹادیں کیونکہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے کوئی یاد بھی نہیں کرے گا۔

اس موقع پر میاں ثاقب نثار نے نے مئیر کراچی اور حکومت سندھ کو کراچی سے کچرا اٹھانے اور نالوں کی صفائی کا کام جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کردی۔

بچوں کی اموات پر غیر جانبدار ڈاکٹروں کی کمیٹی بنانے کا حکم

اس سے قبل چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مٹھی، تھرپارکر میں 5 بچوں کی ہلاکت کے معاملے پر کیس کی سماعت کی، اس دوران سیکریٹری صحت نے عدالت میں رپورٹ پیش کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم مداخلت کا تصور نہیں رکھتے لیکن ہمیں مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔

اس دوران سیکریٹری صحت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ مٹھی میں بچوں کی ہلاکتیں کم وزن کے باعث ہوتی ہیں جبکہ کم عمر میں شادی اور زائد بچوں کی پیدائش بھی اموات کی وجہ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، نومولود بچوں کی اموات میں سب سے خطرناک ملک قرار

انہوں نے بتایا کہ 50 فیصد اموات نمونیہ اور ہیضے سے ہوتی ہیں جبکہ ڈاکٹرز ان اضلاع میں جانے کو تیار نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ سے لگتا ہے کہ آپ کا کوئی قصور ہی نہیں، آپ نے لکھ کر جان چھڑا لی کہ کم وزن والے بچے مرجاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سندھ میں صحت کے بہت مسائل نظر آرہے ہیں، سیکریٹری صاحب آپ کسی اور محکمے میں خدمت کے لیے کیوں نہیں چلے جاتے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ مٹھی میں بہترین ہسپتال بنادیا جبکہ تھر میں مفت گندم تقسیم کرتے ہیں، جس پر بینچ میں موجود جج جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سب معلوم ہے کتنی گندم مفت تقسیم ہوئی، سب کرپشن کی نظر ہو گیا۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاڑکانہ ہسپتال کی ویڈیو دیکھ کر شرم آرہی ہے، سوچ رہا ہوں کہ خود لاڑکانہ جاؤں۔

اس موقع پر عدالت میں موجود سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہماری مدد کریں، آپ خود دیکھ کر آئی، ہسپتال میں کیا ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھول جیسے بچے والدین کے بعد سرکاری ہسپتالوں کی مرہون منت ہیں، بچے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد لاش تھما دی جاتی ہے اور والدین کے پاس رونے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے رضا ربانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لاڑکانہ کے اسپتال کی ویڈیو دیکھی، بہت دکھ ہوا، رضا ربانی صاحب آپ بھی وہ ویڈیو دیکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: تھر میں بچوں کی اموات: سندھ ہائی کورٹ کارپورٹ پرعدم اطمینان

اس دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاڑکانہ کتنی دور ہے، کیا فاصلہ ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ بذریعہ جہاز ایک گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ سندھ حکومت کے سرکاری ہسپتالوں میں فضلے کو ختم کرنے والے ( انسینراٹر) کس کے حکم پر لگ رہے ہیں، جس پر سیکریٹری صحت نے اعتراف کیا کہ یہ کام اور پیش رفت آپ کے حکم پر ہورہی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر کہتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں جو انتظامیہ کے کام میں مداخلت کرتے ہیں، ہمیں مجبوری میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔

سماعت کے دوران سرکاری ڈاکٹرز کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ تھر میں بچوں کی اموات کے معاملے پر غیر جانبدار ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور اس معاملے کی تحقیقات نجی ہسپتال آغا خان یا کوئی اور ہسپتال کے ڈاکٹرز سے کرائی جائے۔

اس موقع سیکریٹری صحت کی جانب سے کمیٹی کے لیے آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹر وسیم کا نام پیش کیا، جس پر عدالت نے انہیں فوری طور پر طلب کرلیا۔

سماعت کے دوران نواب شاہ میں خسرہ کے ٹیکے لگنے سے بچوں کی ہلاکت کا معاملہ بھی زیر غور آیا، اس دوران فوت ہونے والے بچوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

والدین نے بتایا کہ ان کے بچے خسرہ کے ٹیکے لگنے سے فوت ہوئے، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ماہر ڈاکٹرز پر مشتمل کمیٹی نواب شاہ میں بچوں کی ہلاکت کی تحقیقات کرے گی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024