قانونی سقم کے باعث ایف بی آر منی لانڈرنگ اختیارات سے محروم
اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذیلی ادارے انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ (آئی اینڈ آئی) کی جانب سے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اثاثوں اور اکاؤنٹ بنانے والے 270 با اثر شخصیات کے خلاف جاری کارروائی قانونی سقم کے سبب تعطل کا شکار ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد منی لانڈرنگ کے ذریعے اثاثے بنانے والوں کے خلاف آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ کے اختیارات محدود ہو کر رہے گئے۔
یہ پڑھیں: منی لانڈرنگ کے خلاف اسٹیٹ بینک کے نئے قوانین جاری
اسٹیٹ بینک کے فنانشل مارنیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی نشاندہی پر ایف بی آر نے منی لانڈرنگ کے ملزمان کے خلاف کارروائی شروع کی جس میں 80 فیصد ٹیکس چور صنعت کار جبکہ 20 فیصد سیاستدان شامل ہیں۔
تحقیقاتی اداروں کے مطابق منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون اثاثے بنانے والوں میں کراچی کے 57، لاہور کے 25، اسلام آباد کے 18 جبکہ دیگر کا تعلق حیدرآباد، پشاور، فیصل اور ملتان سے ہے۔
ایف بی آر کے اختیارات میں توسیع کے بعد گزشتہ ڈیڑھ برس میں 10 ارب روپے وصول کیے جا چکے ہیں جبکہ ایک منی لانڈرنگ کیس میں ہی کراچی کے ایک صنعت کار سے 6 ارب 50 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے، مذکورہ شخص کے خلاف انٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت مقدمہ بھی قائم کیا گیا۔
ایف بی آر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر منی لانڈرنگ مینڈیٹ کو ڈائریکٹوریٹ کے دائرہ اختیار میں ضم نہیں کیا گیا تو ملزمان سے حاصل 10 ارب روپے واپس کرنے پڑھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایم کیو ایم کے مزید 10پارلمنٹرینز بھی طلب
وزارت خزانہ نے 9 جون 2016 کو قانونی ریگولیٹری آرڈ (ایس آر او) 611 کے تحت انٹی منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) ایکٹ میں وسعت دیتے ہوئے ایف بی آر کے ذیلی ادارے آئی اینڈ آئی ڈائریکیٹوریٹ کو خصوصی اختیارات تفویض کیے جبکہ مذکورہ ایس آر او کو وفاقی حکومت سے منظور نہیں کرایا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے اگست 2016 کو حکم جاری کیا کہ سیکریٹری ریونیو ڈویژن یا وزیر کی جانب سے جاری ٹیکس سے متعلق تمام نوٹیفکیشن وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کالعدم قرار سمجھیں جائیں گے، اس حوالے سے وضاحت پیش کی گئی کہ وفاقی حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ ہے۔
ایک سینئر ٹیکس افسر نے ڈان کو بتایا کہ ایس آر او 611 وزارت خزانہ نے جاری کیا اس لیے وہ ہی اس کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرے۔
مذکورہ ایس آراو کے بعد ایف بی آر کے آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ نے اے ایم ایل ایکٹ 2010 کے تحت ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی شروع کی، اگر ایک شخص ٹیکس چوری کا جرم قبول کرتا ہے تو ایسے مذکورہ رقم مقامی ٹیکس افسر کو فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو دہشت گردوں کی ‘واچ لسٹ’ میں ڈالنے کی تیاریاں
لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کی تصدیق کے بغیر جاری ایس آراو 611 کے تحت جاری تمام آّپریشنز کو کالعدم قرار دےدیا۔
اس ضمن میں عدالتی فیصلہ جنوری 2018 میں سنایا گیا جس کے بعد اے ایم ایل کی چھتری کے نیچے آئی اینڈ آئی ڈائریکٹیوریٹ کو تفویض شدہ اختیارات غیرقانونی ہو گئے۔
ایس آر او کالعدم ہونے کے نتائج
ایس آراو کالعدم قرار ہونے کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارہ فنانشل ایکشن ٹاکس فورس (ایف اے ٹی ایف) کے خدشات میں شدت آسکتی ہے جو فروری میں پاکستان کو ’گرے‘ لسٹ میں ڈالنے سے متعلق سنجیدہ تھا۔
دوسری طرف ایف اے ٹی ایف نے ایف آئی اے، نیب، انسدادِمنشیات فورس سمیت آئی اینڈ آئی ڈائریکیوریٹ کو 9 اپریل تک کارکردگی رپورٹ جمع کرانے کا حکم تاکہ منی لانڈرنگ اور منشیات کی روک تھام کے لیے اداروں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔
رپورٹ جمع ہونے کے بعد ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرکے اقدامات کا جائزہ لے گی۔
اس حوالے سے پڑھیں:منی لانڈرنگ کا الزام: نیب کا خواجہ آصف کے خلاف تحقیقات کا آغاز
ایس آر او ایسے وقت پر کالعدم قرار دیا گیا جب بین الااقوامی باڈی برائے انسدادِ منی لانڈرنگ پاکستان میں ٹیکس چوروں کے خلاف اقدامات کا جائزہ لینے آئے گی۔
دوسری جانب منی لانڈرنگ میں ملوث بااثر افراد اے ایم ایل ایکٹ کے تحت اپنے خلاف مقدمات کو رکوانے کی سعی میں مصروف ہیں جبکہ وفاقی حکومت کو متعدد ایسے خطوط موصول ہوئے جس میں آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ کو تفویض شدہ اختیارات واپس لینے کا استدعا کی گئی۔
یہ خبر 25 مارچ 2018 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی