لفظ پاکستان کا خالق چوہدری رحمت علی یا کوئی اور؟
جب بھی لفظ پاکستان کی تخلیق کا ذکر چھڑتا ہے تو تان اسی بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ اس مملکت خداداد کا یہ خوب صورت نام چوہدری رحمت علی نے وضع کیا تھا اور یہ کہ یہ نام پنجاب کے پ، شمالی مغربی سرحدی (افغانیہ) کے الف، کشمیر کے ک، سندھ کے س اور بلوچستان کے تان کا مرکب ہے۔
چوہدری رحمت علی نے یہ نام اپنے مشہور کتابچے ناؤ آر نیور (اب یا کبھی نہیں) میں تجویز کیا تھا جو 28 جنوری 1933ء کو 3 ہمبر اسٹون روڈ، کیمبرج سے شائع ہوا تھا۔ اس کتابچے پر چوہدری رحمت علی کے علاوہ محمد اسلم خان خٹک (صدر، خیبر یونین)، شیخ محمد صادق (صاحبزادہ) اور عنایت علی خان (آف چارسدہ) (سیکریٹری، خیبر یونین) نے دستخط کیے تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ لفظ پاکستان چوہدری رحمت علی کی تخلیق ہے۔ خود کیمبرج میں چوہدری رحمت علی کی لوحِ مزار پر بھی یہی تحریر ہے:
’بانیٔ تحریکِ پاکستان، خالق لفظ پاکستان‘
کہانی کا پہلا حصہ تو اوپر بیان ہوچکا ہے لیکن اس کا دوسرا حصہ بھی ہے، اور وہ یہ کہ مشہور صحافی اور ماہرِ لسانیات خالد احمد نے اپنی کتاب ’دی برج آف ورڈز‘ میں بھی لفظ پاکستان کی شروعات کے حوالے سے 2 ابواب تحریر کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا لفظ سب سے پہلے خواجہ عبدالرحیم نے اختراع کیا تھا جو سابق گورنر پنجاب، خواجہ طارق رحیم کے والد تھے۔
خالد احمد کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بات سید افضل حسین کے صاحبزادے عظیم حسین نے بتائی تھی۔ خالد احمد کے مطابق عظیم حسین کا کہنا تھا جب خواجہ عبدالرحیم لندن میں مقیم تھے تو ایک دن سر اولاف کیرو کی کتاب ’سوویت سلطنت‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی نظریں ایک نقشے پر ٹک گئیں جس میں وسطی ایشیاء کی ایک ریاست کا نام قراقل پاک ستان تحریر تھا۔ یہیں سے انہوں نے لفظ پاکستان اخذ کیا۔
خالد احمد نے اس بات کی تصدیق کے لیے سر اولاف کیرو کی محولہ بالا کتاب تلاش کی۔ انہیں اس کتاب کا 1950ء کا ایڈیشن دستیاب ہوا۔ خالد احمد کہتے ہیں کہ اس کتاب میں وہ نقشہ بھی موجود تھا اور اس نقشہ میں وہ نام بھی موجود تھا۔
اشفاق بخاری نے اپنی کتاب چناب کلب فیصل آباد میں 13 نومبر 1942ء سے 7 جولائی 1945ء تک لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے ڈپٹی کمشنر رہنے والے خواجہ عبدالرحیم کے حوالے سے تحریر کیا ہے:
’خواجہ عبدالرحیم آئی سی ایس جب شہر میں وارد ہوئے تو اپنے ہمراہ ایک تاریخی حوالے کی پوشیدہ تاریخ بھی لائے۔ ان دنوں انڈین سول سروس کے حکام کی سول سروس اکیڈمی میں تربیت کا کچھ عرصہ انگلستان میں قیام بھی ہوا کرتا تھا۔ خواجہ صاحب کی خوش قسمتی کہ کیمبرج یونیورسٹی انگلستان میں انہیں چوہدری رحمت علی کی رفاقت میسر ہوئی۔ یہ بھی روایت ہے کہ وہ اور ایک اور صاحب تینوں ہی کمرہ میں فروکش تھے۔
پڑھیے: قراردادِ پاکستان: 23 مارچ سے 24 مارچ تک کا سفر
چوہدری صاحب ان دنوں ہندوستان میں سرگرم مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے نام کی جستجو میں رہتے تھے۔ ایک اتفاق یہ رونما ہوا کہ خواجہ عبدالرحیم کے زیرِ مطالعہ وسط ایشیاء کی ریاستوں کے بارے میں مشہور انگریز مستشرق سر اولاف کیرو کی کتاب قراقل پاک ستان آئی چونکہ مطالعہ کے دوران دونوں نام آپس میں جڑے ہوئے تھے اس وجہ سے ان کا دھیان اس طرف نہ گیا مگر جونہی انہوں نے کتاب کی جلد کی پشت کا بغور مطالعہ کیا تو لفظ پاک ستان کی صورت میں نئے ملک کا نام ان کے سامنے تھا۔
خواجہ صاحب نے اس انکشاف کا اظہار چوہدری رحمت علی کے سامنے کیا۔ چوہدری صاحب کو تحریک ملی اور انہوں نے ’نائو اور نیور‘ کے عنوان سے پمفلٹ شائع کردیا اور پاک ستان کے نام سے الگ وطن قائم کیے جانے کا مطالبہ کیا اس میں "I" (آئی) کا اضافہ بعد میں کیا گیا۔‘
اشفاق بخاری کو کتاب کے نام میں تسامح ہوا ہے۔ اس کتاب کا درست نام ’سوویت سلطنت‘ ہی تھا۔ دوسری طرف خالد احمد نے لکھا ہے کہ عظیم حسین سے یہ واقعہ سن کر انہیں قراقل پاک قوم کے بارے میں تجسس ہوا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک ترک النسل قومیت تھی جو ازبکستان کے آمو دریا کے ڈیلٹا پر رہتی تھی۔ اس خطے کو قراقل پاک کی خود مختار ریاست کہا جاتا ہے۔ ان کی اپنی زبان اور رسم الخط ہے جس کی پہلی کتاب سوویت یونین کے دور میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں بھی اس خطے کا نام قراقل پاک ستان لکھا ہے۔
خالد احمد مزید بتاتے ہیں کہ مشہور سائنسدان، سیاح اور مؤرخ البیرونی کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا۔ قراقل پاک کے معنی ہیں سیاہ ٹوپی۔ اردو میں قراقلی ٹوپی کا لفظ بھی اسی خطے سے آیا ہے۔ قراقل پاک قوم کو یہ ریاست 1925ء میں ملی۔ آج ان کی تعداد 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ خالد احمد نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر خواجہ عبدالرحیم نے کسی نقشے پر قراقل پاک ستان کا نام دیکھا ہے تو وہ ممکن ہے اولاف کیرو کی کتاب نہیں بلکہ رائل سینٹرل ایشین سوسائٹی کا جاری کردہ کوئی دوسرا نقشہ ہو۔
قراقل پاک ستان کی موجودہ جغرافیائی صورت حال کے حوالے سے انٹرنیٹ پر موجود انسائیکلو پیڈیا وکی پیڈیا سے بھی مدد لی گئی۔ اس انسائیکلو پیڈیا کے مطابق یہ خطہ آج بھی موجود ہے اور ازبکستان کا حصہ ہے۔ اس کا رقبہ 1 لاکھ 60 ہزار مربع کلو میٹر (61776 مربع میل) اور آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں جو زبان بولی جاتی ہے اس کا نام بھی قراقل پاک ہے اور یہ زبان قازق اور ازبک زبانوں سے بھی ملتی جلتی ہے۔ یہ خطہ بحیرہ ارال کے کنارے واقع ہے۔
خالد احمد نے اپنے مضمون میں مشہور کرکٹر جہانگیر خان کے 2 انٹرویوز کا ذکر بھی کیا ہے جس میں انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ لفظ پاکستان چوہدری رحمت علی کی اختراع نہیں تھا۔ (ڈاکٹر محمد منیر سلیچ کی کتاب وفیاتِ ناموران پاکستان کے مطابق ان میں سے ایک انٹرویو ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ کے مارچ 1978ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا) خالد احمد نے کے کے عزیز کی کتاب میں جہانگیر خان کے انٹرویو کا حوالہ دیا ہے۔
اس انٹرویو میں جہانگیر خان نے بتایا تھا کہ لفظ پاکستان دراصل خواجہ عبدالرحیم کا سوچا ہوا نام تھا۔ 1964ء میں میاں عبدالحق نے بھی ایک اردو روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ 1932ء میں کیمبرج کی نہر کے کنارے خواجہ عبدالرحیم اور پیر احسن الدین چہل قدمی کررہے تھے۔ خواجہ صاحب نے تجویز کیا کہ برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنا چاہیے جو پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور کشمیر پر مشتمل ہو۔ یہ خیال سبھی کو پسند آیا۔
جب علامہ اقبال سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے خیال سے اتفاق کرنے کے باوجود اسے گول میز کانفرنس میں پیش کرنے سے انکار کردیا۔ پھر ایک دن لندن کے گولڈرز گرین کے علاقے میں بس پر سفر کے دوران خواجہ عبدالرحیم نے چوہدری رحمت علی سے کہا کہ اس ریاست کا نام ’پاکستان‘ ہونا چاہیے۔ چوہدری رحمت علی اس پر رضا مند ہوگئے اور بعدازاں علامہ اقبال نے بھی اس کی تائید کردی۔ جون 1970ء میں میاں عبدالحق نے ندائے ملت لاہور میں بھی یہی تحریر کیا کہ لفظ پاکستان خواجہ عبدالرحیم کی تخلیق تھا اور انہیں اس نام کے سلسلے میں علامہ اقبال کی تائید حاصل تھی۔ میاں عبدالحق ساہیوال کے جاگیردار تھے اور ایوب خان کے دور میں قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
مزید پڑھیے: ہندوستان کے یومِ جمہوریہ کا لاہور سے رشتہ
خواجہ عبدالرحیم کا انتقال 5 نومبر 1974ء کو ہوا۔ وہ میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ خود انہوں نے بھی اپنی زندگی میں ایوان نوائے وقت راولپنڈی میں ایک اجلاس میں بتایا تھا کہ لفظ پاکستان کے خالق وہ ہیں اور انہوں نے یہ لفظ پہلی مرتبہ خیبر یونین آف اسٹوڈنٹس کے ایک اجلاس میں استعمال کیا تھا، جس کی صدارت بھی خود انہوں نے کی تھی۔
اس حوالے سے مشہور مؤرخ اور چوہدری رحمت علی کے سوانح نگار خورشید کمال (کے کے) عزیز کا مؤقف تھا کہ:
’نائو اور نیور‘ کا پورا مسودہ چوہدری رحمت علی نے تن تنہا تحریر کیا تھا۔ ان کے اس مسودے پر کوئی شخص دستخط کرنے کو تیار نہیں تھا بالآخر انہوں نے لندن میں 3 ایسے طالب علم ڈھونڈ نکالے جنہوں نے ان کے ساتھ اس مسودے پر دستخط کیے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر جہانگیر خان کے محولہ بالا انٹرویوز کا حوالہ تو دیا مگر اس بات پر کوئی گفتگو نہیں کہ لفظ پاکستان کا اصل خالق کون تھا، چوہدری رحمت علی یا خواجہ عبدالرحیم۔
یہ تو سارا تذکرہ اس بحث کا تھا جس کے مطابق لفظ پاکستان چوہدری رحمت علی یا خواجہ عبدالرحیم کا تجویز کردہ تھا۔ لفظ پاکستان کے حوالے سے ہماری تاریخ کی تمام بحثیں اسی نقطے پر آکر ختم ہوجاتی ہیں اور اس بات کو ایک طے شدہ حقیقت سمجھا جاتا ہے کہ لفظ پاکستان پہلی مرتبہ 28 جنوری 1933ء کو جاری کیے جانے والے چوہدری رحمت علی کے کتابچے ’نائو اور نیور‘ میں شائع ہوا اور یہ کہ یہ لفظ چوہدری رحمت علی یا زیادہ سے زیادہ ان کے دوست خواجہ عبدالرحیم کا وضع کردہ ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقت یہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لفظ پاکستان 1933ء سے کوئی 5 سال پہلے استعمال میں آچکا تھا۔ یہ لفظ کس نے اور کہاں استعمال کیا اس کے لیے ہمیں ماضی کا سفر کرنا پڑے گا اور 24 ستمبر 1905ء کو طوری شریف ضلع ایبٹ آباد میں پیدا ہونے والے علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی کے حالات سے آگاہی حاصل کرنی ہوگی۔
علامہ سید غلام حسن کاظمی کا تعلق کشمیر کی سرزمین سے تھا۔ انہوں نے تعلیم و تربیت کے مراحل اترمچھی پورہ میں طے کیے۔ یہ مقام آج ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہنڈوارہ کہلاتی ہے، جو مقبوضہ جموں و کشمیر کی ضلع بارہ مولا میں واقع ہے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کی۔
حسن شاہ کاظمی لاہور میں اپنے ماموں سید لعل حسین کاظمی کے پاس قیام پذیر ہوئے اور آپ کے اساتذہ میں میاں جان محمد قادری، مولانا میاں عبدالرحمن نقش بندی اور مولانا اصغر علی شامل تھے۔
سید لعل حسین کاظمی ابتداء میں سرکاری ملازم تھے مگر اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ہزارہ بدر کردیئے گئے تھے۔ ہزارہ بدری کے بعد سید لعل حسین کاظمی لاہور آگئے اور مولانا ظفر علی خان کے مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوگئے۔
مولانا ظفر علی خان، زمیندار کے مالک و مختار تھے، مگر اپنی صحافتی سرگرمیاں آزادانہ طور پر برقرار رکھنے کے لیے زمیندار پر بطور مدیر، کسی اور بہادر شخص کا نام درج کرتے تھے تاکہ اگر کسی مرحلے پر ان کی کسی تحریر پر اعتراض ہو تو گرفت اس ڈمی ایڈیٹر کی ہو اور مولانا ظفر علی خان اپنا مجاہدانہ کام آزادی سے جاری رکھ سکیں۔
ڈمی ایڈیٹر کو سال دو سال کی سزا ہوجاتی جسے وہ ہنسی خوشی قبول کرلیتا اور زمیندار کی آزادانہ اشاعت کا سلسلہ جاری رہتا۔ چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر جب حسین شاہ کاظمی، سید لعل حسین کے پاس اقامت پذیر تھے تو سید لعل حسین جیل چلے گئے۔
جانیے: تیئس مارچ کا قاتل کون؟
ان کے جیل جانے کے بعد مولانا ظفر علی خان نے سید غلام حسن شاہ کاظمی کو زمیندار کی مجلس ادارت میں شامل کرلیا۔ اسی ادارت کے دوران انہوں نے زمیندار میں افغانستان میں انگریزوں کی پالیسیوں کے حوالے سے ایک اداریہ تحریر کیا اور حکومتِ وقت پر سخت تنقید کی۔ حکومت نے حسن شاہ کاظمی کو گرفتار کرلیا اور ان کو 2 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
غلام حسن شاہ نے یہ ایام اسیری لاہور، کیمبل پور (اٹک) اور ملتان کی جیلوں میں بسر کیے۔ رہائی کے بعد غلام حسن شاہ سری نگر آگئے اور ایک اخبار حقیقت سے وابستہ ہوگئے۔ پھر وہ بمبئی چلے گئے اور ایک ناشر مظفری اینڈ کمپنی، تاجران کتب، بھنڈی بازار کے پاس ملازم ہوگئے۔ جن دنوں مولانا غلام حسن شاہ کاظمی بمبئی میں مقیم تھے، انہی دنوں انہوں نے یکم جولائی 1928ء کو ایبٹ آباد سے ایک ہفت روزہ اخبار کے اجراء کے لیے ڈیکلئیریشن کی درخواست دی۔ یہ پہلا موقع تھا جب برِصغیر پاک و ہند کے کسی شخص نے لفظ پاکستان استعمال کیا تھا۔
غلام حسن شاہ نے یہ درخواست ایس اے عزیز چشتی کے توسط سے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کی خدمت میں روانہ کی تھی۔ ایس اے عزیز چشتی ضلعی مجلس اتحاد ملت ایبٹ آباد کے صدر، ضلعی مسلم لیگ ایبٹ آباد کے پروپیگنڈا سیکریٹری اور سٹی مسلم لیگ ایبٹ آباد کے سیکریٹری تھے۔ ایس اے عزیز چشتی نے اس درخواست کے ساتھ ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کے نام ایک خط بھی تحریر کیا جس میں لکھا تھا:
’میں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں گا اگر آپ مجھے سید غلام حسن شاہ کی اس درخواست کے حوالے سے جو انہوں نے ہفت روزہ اخبار پاکستان کے ڈیکلئیریشن کے لیے جمع کی ہے، گفتگو کے لیے چند منٹ کی ملاقات کا وقت عطا فرما دیں۔‘
یہ درخواست ڈپٹی کمشنر ہزارہ کے دفتر میں یکم جولائی 1928ء کو موصول ہوئی مگر اسی روز اس جوابی خط کے ساتھ واپس لوٹا دی گئی۔
’درخواست گزار کو مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ابھی مزید تفتیش اور تحقیق کا متقاضی ہے۔ جونہی اس درخواست پر کوئی فیصلہ ہوا، درخواست گزار کو مطلع کردیا جائے گا۔‘
اس خط پر ڈپٹی کمشنر ہزارہ کے سپرنٹنڈنٹ کے دستخط موجود ہیں، مگر لگتا یہ ہے کہ غلام حسن شاہ کا مجاہدانہ ماضی، درخواست کی منظوری میں رکاوٹ بن گیا اور ڈپٹی کمشنر ہزارہ نے ہفت روزہ پاکستان کے ڈیکلریشن کی درخواست مسترد کردی۔
21 مئی 1929ء کو غلام حسن شاہ کے بھائی سید میرن شاہ نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان اخبار کے اجراء کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ (سید میرن شاہ کا یہ خط اور اس کا لفافہ دونوں آج بھی محفوظ ہیں اور ان کا عکس اس بلاگ کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔) سید میرن شاہ نے اپنے مکتوب میں تحریر کیا تھا:
"برادر مکرم! السلام علیکم و رحمتہ اللہ علیہ! شجرہ شریف چھپ گئی ہے، میں ایبٹ آباد گیا تھا، حسب الحکم پتہ کیا ہے، پاکستان اخبار کی درخواست کی منظوری نہیں مل سکی ہے، آپ کی اہلیہ کی صحت ٹھیک نہیں ہے، آغا جی نے بتایا ہے کہ وہ کافی پریشان ہیں، عزیزی نذیر حسین دوائیوں کے لیے جارہا ہے، یہ خط اسے دے رہا ہوں، راستہ سے بھیج دے گا، پیسے بھی دے دیئے ہیں، آپ جلدی آنے کی کوشش کریں، بہتر یہی ہے کہ چٹھی ملتے ہی آجائیں۔"
غلام حسن شاہ نے جب ہفت روزہ پاکستان کے اجراء کی درخواست روانہ کی تو اس زمانے میں چوہدری رحمت علی، ہندوستان ہی میں مقیم تھے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کسی خبر یا کسی اور ذریعہ سے غلام حسن شاہ کی اس درخواست یا لفظ پاکستان کے حوالے سے کچھ سنا ہو اور یہ لفظ ان کے حافظے کا حصہ بن گیا ہو۔ جنوری 1933ء میں چوہدری رحمت علی نے اپنے مشہور کتابچے نائو اور نیور میں یہ لفظ پہلی بار استعمال کیا اور یوں دنیا انہی کو اس لفظ کا خالق سمجھ بیٹھی۔
سید غلام حسن شاہ کاظمی اپنی پہلی درخواست کے استرداد سے مایوس نہیں ہوئے اور انہوں نے 1935ء میں انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد ایک مرتبہ پھر ہفت روزہ پاکستان کے اجراء کی درخواست داخل کردی۔ اس مرتبہ وہ کامیاب رہے اور یوں یکم مئی 1936ء کو ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کی اشاعت کا آغاز ہوگیا۔
غلام حسن شاہ نے ہفت روزہ پاکستان کے دوسرے شمارے (مؤرخہ 8 مئی 1936ء) میں ہفت روزہ کا نام پاکستان رکھنے کا سبب ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’اخبار کا نام ہم نے پاکستان کیوں پسند کیا؟ یہ نام اس لیے اختیار کیا گیا کہ غیر مسلم اس سے بہت گھبراتے ہیں۔ انہیں بتایا جائے یہ کوئی خطرناک نام نہیں۔ انہیں عقل و فکر کی دعوت دینا مقصود ہے تاکہ جو نامانوسی انہیں پاکستان سے ہے وہ مانوسیت سے بدل سکے۔‘
اس کے پہلے شمارے میں پاکستان اخبار جاری کرنے کے حسبِ ذیل اغراض و مقاصد بیان کیے گئے:
’ہفت روزہ پاکستان کا کیا عقیدہ ہے کہ اسلامی تہذیب، تمدن، سیاست و معاشرت اور اخلاق و روحانیت مقدس مذہب کے اجزاء میں۔ عصرِ حاضر کے کورباطن جہلا نے جو نیا عقیدہ وضع کیا ہے کہ مذہب جدا ہے اور سیاست جدا۔ ہمارے نزدیک یہ عقیدہ مردود ہے کیونکہ اگر مذہب اسلام سے متذکرہ فرق اجزاء سے الگ کرلیے جائیں تو پھر معلوم نہیں کہ اسلام کے لیے کونسی خوبی باقی رہ جاتی ہے۔‘
اخبار ہفت روزہ پاکستان کے اجراء کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی:
’سب سے بڑا مقصد اسلام کی خدمت، مسلمانوں کا اتحاد اور ان کی سرخروئی ہے۔ اگر یہ کام ہوجاتا ہے تو زہے قسمت!‘
اخبار کے پہلے ہی اداریہ میں اپنی پالیسیوں کی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ:
’کانگریس کو ہم ایک فعال اور ہندوستان کی سب سے بڑی سرمایہ دار جماعت سمجھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں ہندو پن کی ذہنیت کی بہت زیادہ کار فرمائی ہے۔ کانگریس کا ساتھ یہ بھی عزم ہے کہ ہندوستان کی کمزور اور چھوٹی چھوٹی اقوام کو اکثریت والی قوم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ مسلمان، ایک قوم کی غلامی کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ ملکی اور غیر ملکی حکومت کا سوال بے معنی ہے۔ غلامی بہرحال غلامی ہے، خواہ وہ ہندو کی ہو یا کسی اور کی…! نجات و حریت اور تعمیر و فلاح کے دروازے ہر کسی پر نہیں کھل سکتے جب تک وہ اپنی تنظیم نہ کریں۔‘
ہفت روزہ پاکستان نے بہت کم زندگی پائی۔ 1937ء میں ہندوستان بھر میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جس کے نتیجے میں صوبہءِ سرحد میں کانگریس کی حکومت قائم ہوگئی اور ڈاکٹر خان صاحب صوبہءِ سرحد کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ انہوں نے اپنی وزارت کے قائم ہوتے ہی 1938ء میں ہفت روزہ پاکستان کی ضمانت ضبط کرلی اور یوں یہ جریدہ بند ہوگیا۔
علامہ غلام حسن شاہ نے 1939ء میں سری نگر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ حقیقت سری نگر کی ادارت سنبھال لی۔ بعد ازاں وہ مظفرآباد کے ایک موضوع ٹھنگر شریف میں جابسے۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی علمی ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ غلام حسن شاہ کو انگریزی، عربی، فارسی، اردو، ہندی، گورمکھی، پنجابی، پشتو اور ہندکو زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے مختلف مذہبی موضوعات اور انساب کے موضوع پر 127 کتابیں تحریر کیں، جن میں متعدد کتابیں ہنوز تشنہ طباعت ہیں۔
14 ستمبر 1984ء کو اس مرد قلندر کا انتقال ہوگیا۔ وہ مظفرآباد کے مضافاتی گاوں ٹھنگر شریف میں آسودۂ خاک ہیں۔
تبصرے (7) بند ہیں