متحدہ مجلس عمل بحال: مولانا فضل الرحمٰن صدر منتخب
کراچی: مذہبی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے) کو مکمل طور پر بحال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کو اس صدر منتخب کردیا گیا۔
کراچی میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے متعلق اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے باضابطہ طور پر ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کیا۔
انہوں نے سربراہ کے نام کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن متحدہ مجلس عمل کے صدر ہوں گے جبکہ لیاقت بلوچ کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: مذہبی سیاسی جماعتوں کا متحدہ مجلس عمل بحال کرنے کااعلان
اس موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نومنتخب صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کے قیام پر پوری قوم کومبارکباد پیش کرتا ہوں اور ایم ایم اے میں تمام جماعتوں کی برابر کی حیثیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں نئی سیاست کا آغاز کر رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات ایم ایم اے کے پرچم تلے لڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پالیسی سازی اور فیصلہ کرنے میں سب کی حیثیت برابر ہوگی اور جس طرح مرکز میں تنظیم سازی ہوئی اسی طرح صوبے اور ضلعوں میں بھی تنظیم سازی ہوگی۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بہت سے لوگ اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان جس مقصد کے لیے معرض وجود میں آیا تھا وہ پوری ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں قیام امن کی پالیسی بنائی جائے اور ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ اس کے بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور متحدہ مجلس عمل مسلم امہ کی آواز بنے گی۔
نو منتخب صدر کا کہنا تھا کہ سودی معیشت نے پورے معاشی نظام کو جکڑ لیا ہے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ملک کے نظام کو بہتر کرکے قوم کی امیدوں پر پورا اتریں۔
بعد ازاں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیاست پر ظالم و جابر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے لیکن ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے عام پاکستانیوں کے لیے ایوان کے دروازے کھلیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ مجلس عمل: ’اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ کالعدم جماعتوں کا اتحاد‘
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل عام پاکستانی کی ترجمانی کرے اور مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست ہمارے لیے نمونہ ہے۔
واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور، 2002 میں بنائی گئی متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں 2002 سے 2007 تک حکومت کی تھی جس کے بعد جماعت کے اندر اختلافات پیدا ہونے سے اس کی مقبولیت ختم ہوگئی تھی۔
بعد ازاں 2008 اور 2013 کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عوام کی واضح حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔