• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

اب سے ’مائے نس‘ صرف عمران خان!

شائع March 20, 2018

پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں یہ ’فکری مغالطہ‘ پایا جاتا ہے کہ یہاں انصاف کا مطلب عدل ہے، نہیں بھیّا، بات یوں ہے کہ جو اس تحریک میں ’اِن‘ ہوا وہ ’صاف‘ ہوگیا، یوں اس تحریک کا نام ہوا ’پاکستان تحریکِ اِن-صاف۔‘

اس راز سے ہم بھی ناواقف تھے مگر جب ہم نے عمران خان کی جماعت میں آنے والوں کو یکایک صاف سُتھرا ہوتے دیکھا تو ہمیں اس بات پر یقین آیا کہ ’ماں مانے بس تحریک انصاف کا دُھلا‘ (یہاں ماں کی جگہ آپ باپ اور بابا بھی کرسکتے ہیں)، لیکن یہ سوچ کر پریشان ہوتے رہے کہ ایسا ہوتا ہے تو کیوں ہوتا ہے؟ بڑی سوچ بچار کے بعد عقل ہار گئی، ایسے میں استادالعلماء حضرت علامہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کام آئے۔

ایسے اہلِ زبان کے بارے میں تو آپ نے سُنا ہوگا کہ زبان جن کی محبوبہ ہے، لیکن عامر لیاقت کو جب سُنیں تو لگتا ہے کہ الفاظ اُن کی محبوبہ ارے نہیں نہیں، ہم حضرت کی مناسبت سے کوئی ایسا ویسا لفظ کیسے استعمال کرسکتے ہیں، بھئی لفظ ان کے غلام ہیں۔ وہ لفظوں سے کھیلتے ہیں، کبھی انہیں جُنھجُھنا بناتے ہیں، کبھی فٹبال اور جب جادوگری پر آتے ہیں تو لفظ کے رومال سے کبوتر نکال کر اُڑا دیتے ہیں۔

پڑھیے: مجھے معاف کردیں، میں چھوٹا سا، منّا سا، پیارا سا بچہ ہوں!

سو ہم نے جب ان ماہرِ لفظیات کی لیاقت سے رجوع کیا تو تحریکِ انصاف کے نام کا عقدہ پَل بھر میں کُھل گیا۔ وہ یوں کہ حضرت نے الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے ’مائینس (Minus)‘ کرنے کی باتوں پر اپنے اُس وقت تک کے قائد سے محبت اور عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا، ’مائے نس یعنی الطاف حسین میری نس ہے‘ بس یہی فارمولا ہم نے ’انصاف‘ پر لاگو کردیا کیسا دیا!

عامر لیاقت کا یہ تاریخی فقرہ زبان ہی پر ان کی دسترس ظاہر نہیں کرتا، ان کی زبان کی ’صلاحیتوں‘ کا اظہار بھی کرتا ہے۔

لوگ محبوب کو دل میں مکین رکھتے ہیں، اس کا پیار پور پور میں سماتا اور نس نس میں دوڑتا ہے، لیکن پورے کے پورے اور وہ بھی اتنے بھرے پُرے محبوب کو باریک کرکے نس بنا دینا بھی ڈاکٹر صاحب ہی کا کمال ہے۔ یہ الطاف بھائی سے ان کے عشق کی معراج تھی، جس تک وہی پہنچ سکتے تھے۔ عشق کا معاملہ اپنی جگہ، مگر بَھیّے یہاں تو طب کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔

دل بدلتے ہیں، آنکھیں بدلتی ہیں، لوگ ذہن بدل لیتے ہیں، لیکن نس بدلنے کا ہم نے کبھی نہیں سُنا۔

کوئی اس بابت پوچھے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ میاں! پُرانی نس بہت پھڑکنے لگی تھی، اس لیے نکلوا کر نئی لگوالی، میانوالی کی تن درست و توانا ’نیازی نس۔‘ ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان کرکٹر ہوا کرتے تھے تو ان کے پٹھے چڑھ جایا کرتے تھے۔ سیاست میں آنے کے بعد وہ جتنے متحرک رہے انہیں پٹھوں کی تکلیف نے پریشان رکھا ہوگا، اب سب خیریت لگتی ہے، شاید انہیں نیا پٹھا مل گیا ہے۔

چلیے ’نس‘ کے حوالے سے تو ہم نے معترضین کا اعتراض دور کردیا۔ اب رہ گیا ایک اور مسئلہ۔ وہ یہ کہ 22 اگست 2016ء کو ہونے والی الطاف بھائی کی خودکُش تقریر کے بعد عامر لیاقت اس کُھلم کُھلا پاکستان مخالف تقریر کا دفاع کرتے رہے اور پھر جب رینجرز کی تحویل میں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد واپس آئے تو اُن میں حُب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری گئی معاف کیجیے گا بھری ہوئی تھی۔

پڑھیے: رمضان، متیرہ اور عامر لیاقت

رینجرز سے کیا چھوٹے انہوں نے سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کردیا اور کہہ دیا، ’اب میں کبھی سیاست میں نہیں آؤں گا، اگر آؤں تو مجھے یاد دلائیے گا۔‘ ان کے اس اعلان کو جواز بناکر لوگ خواہ مخواہ طنز کر رہے ہیں۔ ان کا مطلب بس اتنا تھا کہ میں اُس سیاست میں نہیں آؤں گا جو کبھی کبھی ہی ہوتی ہے، خودکار ہوتی ہے، کسی کے اشاروں پر نہیں ہوتی۔ انہوں نے غلط کب کہا، وہ اس ’کبھی سیاست‘ میں تو نہیں آئے ناں (عامر بھائی پھر کیسا دیا)۔

اب جہاں تک یاد دلانے کا تعلق ہے تو دراصل عامر بھائی اینکر بھی ہیں، صحافی بھی، شاعر بھی، ماڈل بھی اور اداکار تو ہیں ہی، چناں چہ انہیں یاد نہیں رہتا کہ وہ جہاں ہیں وہاں کس حیثیت میں ہیں۔ ایسے میں خطرہ تو ہوتا ہے ناں کہ جلسے سے خطاب کرتے کرتے اچانک مجمع سے پوچھ بیٹھیں ’آم کھائے گا آم‘، شرکاء سے اچانک تُکے لگوانا شروع کردیں، عمران خان کو مولانا سمجھ کر عالم آن لائن کے میزبان بن جائیں اور فتوے لینا شروع کردیں۔

پھر عمران خان خطاب کرتے ہوئے فخر سے اعلان کریں ’اوئے پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے‘ اِدھر پیچھے بیٹھے عامر لیاقت کا میل ماڈل جاگ اور پُکار اُٹھے ’بیچ دے‘ اور جلسے میں جوتا چلنے پر بے ساختہ کہہ اُٹھیں ’کیسا دیا‘ اس خدشے کے پیش نظر ہی عامر لیاقت نے درخواست کی تھی کہ بھیّا! مجھے یاد دلا دینا کہ میں سیاست میں آگیا ہوں اور سیاست داں ہوں۔

عامر بھائی! کوئی آپ کو یاد دلائے نہ دلائے ہم یاد دلاتے رہیں گے، ساتھ ہی آپ کی نئی جماعت کو بھی یاد دلادیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان جو نیا پاکستان بنانے کی تمنا رکھتے ہیں، اس کے لیے انہیں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی صورت میں نئی زبان تو مل ہی گئی ہے۔ اس بولی کا ہر بول جلسوں کی رونق اور اخلاقیات کی حد آگے بڑھائے گا۔

یہ زبان مخالفین پر بوریاں بھر بھر کے گند پھینکنے ہی کے کام نہیں آئے گی، اس گندگی کو صاف کرنے کے لیے لجلجاتی اور گِڑگِڑاتی معافی کی صافی کا فریضہ بھی انجام دے گی۔ تو نئے پاکستان والوں کو نئی زبان مبارک۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (11) بند ہیں

Hanif Mar 20, 2018 06:21pm
Aala.
عمر بشیر Mar 20, 2018 09:02pm
ٹھیک ہے ، لیکن عامر لیاقت حسین عوام کے ایک طبقہ میں خاصے مقبول ہیں۔ آج بھی وہ مجمع اکھٹا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاست میں یہ سب کچھ ہوتا ہے ۔ پی پی کا قاتل لیگ سے اتحاد، نواز شریف کے اہم ساتھیوں کا صدر مشرف سے حلف، مشرف صاحب کے خاص ساتھیوں کا نواز شریف کی کائینہ میں شامل ہونا۔ اگر جناب عامر لیاقت حسین تحریک انصاف میں شامل ہونگے تو کیا برا ہے ؟
Princess Mar 20, 2018 11:36pm
پر مزاح تحریر ہے۔مزا آیا۔ ایک عام پاکستانی جو ملک میں تبدیلی دیکھنا اور ایک ترقی کرتا ہوا کرپشن فری پاکستان چاہتا ہے وہ حالیہ دنوں میں بہت مایوس ہوا ہے۔ جب لوگوں کو بدعنوان شخص کا دفاع کرتے دیکھا اور کرپٹ لوگوں نے عدالتوں کو برا کہا اور کچھ لکھنے والوں نے بھی اُن کا ساتھ دیا پھر دیکھنے والوں نے الیکشن اور بریانی کی پلیٹ اور پھر کرپٹ کو ہی سلیکٹ ہوتے دیکھا وہاں اس ملک کی سیاہ ست کی کامیابی کا نُسخہ کیمیا کردار میں نہ گفتار میں بلکہ ایسی ہی شعبدہ بازیوں اور قلبازیوں میں مضمر نظر آتا ہے۔ فٹبال کے میدان میں اپنے گول سے لیکر مخالف کے گول تک کامیابی سے بار بار بھاگنے والوں کو کوئی کامیاب نہیں کہتا۔ یہ ایک سعی لاحاصِل ہے۔کامیاب وہ ہے جو اس تمام محنت کو گول میں تبدیل کرتا ہے۔ اسے کامیابی اور مقصد کا حصول کہتے ہیں۔ 26 سال کی مشقت عمران کی 65 سال کی عمر اور پاکستان کی سیاہ ست۔ اب سیاست کا وقت خان کے پاس نہیں بچا۔ اب مقصد کا حصول ہی سب کچھ ہے۔ جب کوئی دہائیوں کی گندگی  صاف کرنے اترتا ہے تو گند اس کے کپڑوں کو بھی لگتا ہے۔ مجھے عمران کے مقصد پر بھروسہ ہے کسی آنے یا جانے والے  سے کوئی غرض نہیں۔
عمران Mar 21, 2018 12:14am
اور یہ سوچیئے کہ کیا عامر لیا قت سے لائق ترجمان پی ٹی آئی کو مل سکتا تھا؟
farooq Khan Mar 21, 2018 12:47am
@عمر بشیر So you mean to say that PTI is same as other political parties and no different. In that case, PTI has no different agenda except to get into power by hook or crook. It's a shame for all of us.
Rayed Mar 21, 2018 12:44pm
Excellent
muhammad usman jamaie Mar 21, 2018 02:58pm
آپ سب کا شکرگزار ہوں
Malik Mar 21, 2018 04:10pm
بہت خوبصورت اور مدلل تجزیہ ۔۔۔ پاکستان تحریک اِن صاف ۔۔۔ خوب است بقول فواد چودھری کے پاکستان کی سب سے بڑی لانڈری ہمارے پاس ہے۔
Rameay Mar 21, 2018 04:23pm
Yet another U-Turn joins the Party.
Asim Mar 21, 2018 06:32pm
@عمران آپکے خیال میں عامر لیاقت پی ٹی آئ کی ترجمانی کرے گا؟
muhammad usman jamaie Mar 23, 2018 01:26pm
آپ سب کا شکرگزار ہوں

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024