نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟
انتخابی حلقوں کی نئی حلقہ بندیوں سے گرما گرمی تو پیدا ہونی ہی تھی۔ حلقہ بندیوں کے لیے پیش کی گئی ابتدائی تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے قومی اسمبلی نے حال ہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی سے ایک ہفتے کے اندر اندر رپورٹ جمع کرنے کو کہا گیا۔
اسپیکر نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے اعتراضات کی وجہ سے کمیٹی تشکیل دی۔ لیکن دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے کمیٹی کو اس معاملے میں مداخلت سے باز رکھنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اس کے بجائے اسٹیک ہولڈرز کو دستیاب قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کو کہا ہے جس کے تحت ایک یا ایک سے زائد ووٹر اپنے اعتراضات جمع کرسکتے ہیں۔
نئی تجاویز پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں آبادی کے لحاظ سے عدم مساوات کا شکار ہیں۔
جہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست (کوٹہ) اوسطاً 7 لاکھ 80 ہزار کی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے، وہاں 7 ایسے حلقے ہیں جن میں آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہے اور 18 ایسے ہیں جن میں آبادی 9 لاکھ سے 10 لاکھ سے درمیان ہے۔ اس کے برعکس 5 حلقوں کی آبادی 5 لاکھ سے بھی کم ہے اور 3 دیگر ایسے حلقے ہیں جن میں آبادی 5 لاکھ سے 6 لاکھ کے درمیان ہے (ان میں فاٹا شامل نہیں، جہاں حلقوں کا سائز قانون کے مطابق مقرر کردہ قومی اوسط کے نصف کے برابر ہے۔)
پڑھیے: نئی حلقہ بندی: ’پارلیمانی کمیٹی دخل اندازی سے باز رہے‘
حالانکہ انتخابی ایکٹ 2017ء میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ جتنا ممکن ہوسکے آبادی کے لحاظ سے مساوی طور پر حلقہ بندیاں کی جائیں اور اگر حلقوں کے سائز میں 10 فیصد کا فرق ہو تو ای سی پی سے اس کی وضاحت طلب کی جائے۔ ای سی پی نے صرف ان جگہوں پر ہی وضاحتیں پیش کیں جہاں اس نے ضروری سمجھا۔ مگر زیادہ تر مثالوں میں، خود قانون ہی عدم مساوات کی وجہ بنتا ہے جس کے تحت حلقہ بندیوں کے اصولوں کو متعین کیا گیا۔
ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں قانون وہ ہے جن کا تعلق دیہی علاقوں میں پٹوار/تپیدار (زمین کا ریکارڈ رکھنے والے افسر) کے دائرہ کار اور شہری علاقوں میں مردم شماری کے دائرہ کار سے ہے، جس کے تحت یہ علاقے سب سے چھوٹے یونٹ جبکہ ضلع سب سے بڑا یونٹ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے ایک ضلعے کی حدود میں آنے والے متصل چھوٹے ترین یونٹس مل کر ایک حلقہ بناتے ہیں۔ ایک حلقے کو ضلعے کی حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں ہوتی جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر ضلعے کے پاس نشستوں کا ایک پورا نمبر ہوگا۔
تاہم ضلعی آبادیاں ایک حلقے کے لیے متعین کردہ کوٹے کے لحاظ سے مساوی طور پر تقسیم نہیں۔ اس وجہ سے اضلاع میں نشستوں کی تقسیم ہوتی ہے اور اس طرح پھر (راؤنڈ آف) کا بھی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے؛ اور یہی طریقہ حلقوں میں عدم مساوات کی وجہ بنتا ہے۔ مثلاً، موجودہ تجویز کے مطابق، گجرانوالہ ضلعے کی 50 لاکھ کی آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی میں 6.43 نشستیں بنتی ہیں۔ راؤنڈ آف کرنے کے بعد 6 نشستیں بنتی ہیں اور یوں ضلعے کے حلقوں کا اوسط سائز بڑھ جاتا ہے۔ مجوزہ 2 حلقوں، گجرانوالہ 3 اور گجرانوالہ 4، کی آبادی متعین کردہ آبادی کے کوٹے سے بالترتیب 9 اور 11 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم، خاص طور پر ان 6 نشستوں میں آبادی کا فرق ایک ضلعے کے لیے متعین کردہ اوسط کے 5 فیصد سے زیادہ یا اس سے کم بنتا ہے۔
پڑھیے: نئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور نہ ہوسکے
حافظ آباد ضلعے کو 1993ء میں گجرانوالہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کا حصہ 1.48 فیصد بنتا ہے جسے راؤنڈ آف کرنے پر صرف ایک نشست بنتی ہے یوں 11 لاکھ 60 ہزار آبادی والے ضلعے کی یہ نشست ملک کی دوسری سب سے بڑی نشست بن جاتی ہے۔ گجرانوالہ اور حافظ آباد دونوں کو ملا دیا جائے تو ان کا حصہ 7.91 بنتا ہے۔ اگر ان 2 اضلاع کو الگ نہ کیا گیا ہوتا، یا الگ کرنے کا طریقہ کار مختلف ہوتا، تو یہ مل کر قومی اسمبلی میں ایک اور نشست نکال سکتے تھے۔ نئی حلقہ بندیوں میں دونوں اضلاع نے اپنی نصف، نصف نشستیں گنوا دیں اور وہاں ایسے حلقے بنے جو کہ صوبائی اوسط سے بھی بڑے تھے۔
جھنگ اور اس سے حال ہی میں الگ ہونے والے چنیوٹ ضلعے کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی سے بھرپور ہے۔ حلقہ بندیوں کی رپورٹ کے مطابق، جھنگ کی نشستوں کے 3.52 حصے کو کم کرکے 3 کرنا پڑا حالانکہ اعشاریہ کے بعد پانچ کا حصہ بھی تھا لیکن اس کو نظر انداز کرنا پڑا کیونکہ جن اضلاع کے پاس اعشاریہ کے بعد بڑے بڑے ہندسے تھے وہ پہلے ہی تمام دستیاب نشستوں کو حاصل کرچکے تھے۔ اس طرح 3 بڑی نشستوں کا جنم ہوا جن کی اوسط آبادی 9 لاکھ سے زائد تھی۔
اس کے برعکس ماضی میں جھنگ کا حصہ رہنے والے چنیوٹ کا حصہ 1.76 بنا اور اسے 2 نشستیں دی گئیں جو کہ واضح طور پر کوٹہ سائز سے چھوٹی تھیں۔ چنیوٹ کی 2 نشستوں پر اوسط آبادی 6 لاکھ 85 ہزار ہے۔ جس انداز میں 2 اضلاع کو توڑا گیا اس کے نتیجے میں ایک ضلعے میں چھوٹے حلقے وجود میں آئے اور یوں اس کی قیمت دوسرے ضلعے کو بڑے حلقے بنانے کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔
11 لاکھ 70 ہزار آبادی رکھنے والے ضلع بنوں کو خیبر پختونخوا کی نشستوں کا 1.49 حصہ ملا اور اسے ایک نشست دی گئی یوں یہ ملک کا سب سے بڑا حلقہ بن گیا ہے جبکہ ضلع ٹانک کو نشستوں کا 0.50 حصہ ملا اور یوں یہ سب سے چھوٹی ترین نشست ہے۔ اس طرح 2 سب سے زیادہ عدم مساوی نشستوں کے حلقے ایک دوسرے سے متصل ہیں۔
اگر اس کا موازنہ فیصل آباد سے کیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ اسے نشستوں کا 10.1 حصہ ملا، اور یوں فیصل آباد کو اعشاریہ کے بعد بڑا نمبر نہ ہونے کی وجہ سے راؤنڈ آف کے استعمال کا بہت ہی کم اثر ہوا کیونکہ اس ضلعے کو مکمل 10 نشستیں مل گئیں۔ فیصل آباد کی نشستوں کے سائز میں فرق 10 فیصد کی قانونی حدود کے اندر ہے۔ یہی صورتحال لاہور، پشاور، حیدرآباد اور کئی دیگر اضلاع کے ساتھ ہے۔
پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ
حلقہ بندیوں میں 2 اہم اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ پہلا یہ کہ آبادی کے لحاظ سے حلقوں کے درمیان 10 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہو، اور دوسرا یہ کہ وہ ضلعے کی حدود کے اندر آتے ہوں۔ یہ دونوں اصول میرٹ رکھتے ہیں لیکن بلاشبہ ان 2 پر ایک ساتھ عمل نہیں جاسکتا۔ اگر ایک پر عمل کیا جائے تو دوسرا متاثر ہوتا ہے۔
اس پیچیدگی میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نئے انتظامی یونٹس کو وجود میں لانے یا موجودہ یونٹس کی حدود میں تبدیلیاں کرنے کا اختیار صوبائی حکومتوں کا ہے اور حلقہ بندی کرنے والے حکام صرف انہی کی پیروی کرسکتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ، الیکشن ایکٹ 2017ء میں واضح طور پر طریقہ کار پیش کیا گیا تھا جس میں حلقوں کو ضلعی حدود تک محدود رکھنے کو ترجیح دی گئی تھی۔ اس مسودے کو گزشتہ اکتوبر کو منظرِ عام پر لایا گیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس پر اپنے اپنے اعتراضات جمع کروانے کو کہا گیا لیکن اس وقت کسی بھی جماعت نے یہ مسودہ پڑھنے، اس کے اثرات کا تجزیہ کرنے اور اس میں تبدیلی کے لیے تجاویز دینے کی تکلیف نہیں کی۔
لہٰذا اس کا حل پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے پاس ہی ہے۔ انہیں ایک جامع قانون سازی کا پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتظامی اور سیاسی حدود کو تشکیل دیا جائے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جائے۔ کیونکہ ان 2 میں سے ایک کی حدود متعین کرنے سے آپ کے سامنے ایک الجھی ہوئی صورتحال ہوگی جس سے ہم آج نبردآزما ہیں۔
مگر موجودہ حلقہ بندیوں میں تو ہم یہ موقع گنوا بیٹھے ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتیں، اس سے سبق حاصل کرسکتی ہیں اور مستقبل کے لیے پلان تیار کرسکتی ہیں اور یاد رہے کہ موجودہ تجاویز کے گرد گھومتے تنازعات کو زیادہ ہوا دینے سے جمہوری بیانیے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 مارچ 2018ء کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں