بتایا جائے مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ کیا ہے، چوہدری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار نے پارٹی میں کسی فاروڈ بلاک کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختلافات کی وضاحت کا وقت قریب آیا ہے لیکن مجھے بتایا جائے کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ کیا ہے۔
ٹیکسلا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں بن رہا، سیاست پہلوانی کامقابلہ نہیں بلکہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے راستہ نکالنے کا فن ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں مسلم لیگ (ن) میں ہوں اور جو معاملات پچھلے چند مہینوں سے چل رہے ہیں ان کو خاموشی سے دیکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو بچ کر ایک کونے میں بیٹھا رہوں مگر بہت ساری چیزوں کی وضاحت کا وقت قریب آیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں اس حلقے میں گزشتہ 33 برس سے ہوں اور یہاں مسلم لیگ (ن) کی اینٹ، اینٹ جوڑ کر پارٹی بنائی ہے ایک وقت تھا یہاں پر پارٹی ضمانت ضبط ہوتی تھی۔
چوہدری نثار نے کہا کہ مجھے پہلے یہ بتایا جائے کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ کیا ہے جس کے بعد میں اگلا سوال کروں گا۔
ان کا کہنا تھا میرا بیانیہ نہیں بلکہ موقف اور مشورہ ہے جس کو میں نواز شریف کے سامنے رکھ چکا ہوں کہ ہمیں عدلیہ سے اور پاکستان کی افواج سے لڑائی نہیں لڑنی چاہیے اور اگر اس فیصلے کے حوالے سے کوئی آسانی ملنی ہے تو اسی سپریم کورٹ سے ملے گی۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میرا موقف ہے کہ ہم مقابلہ سیاسی مخالفین سے کریں اور اپنا منہ ان کی طرف کریں اور اداروں سے لڑائی نہ لڑیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بھلائی ہے اس کے ساتھ سیاسی عمل کی بھی بھلائی ہے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے معاملات پرپارٹی میں ہی بات کروں گا، کنونشز میں نہیں گیا اور اکثر نہیں جاتا تاہم یہ معاملات پارٹی کے اندورنی معاملات ہیں میں کہاں جاؤں اور مجھے کب دعوت دی جاتی ہے۔
سابق وزیر داخلہ نے گزشتہ روز اسمبلی میں دیے گئے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے بعض حلقوں نے اس کو غلط سمجھا کیونکہ میرا مقصد نواز شریف یا اسحٰق ڈار کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ ای سی ایل کے حوالے سے پالیسی کی وضاحت کررہا تھا اور ای سی ایل کے حوالے سے اسمبلی میں کسی اورماحول میں بات ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ای سی ایل کے اختیارات اور قانون کو نئی شکل دی کیونکہ اسلام آباد میں ایسے لوگ رہائش پذیرتھے جس کا حکومت کوبھی علم نہیں تھا اور ایسے لوگ پاکستان کا ویزا لے کرآئے جو سیکیورٹی کے لیے خطرہ تھے۔
انھوں نے کہا کہ ایک ایک قدم جو میں نےاٹھایا ہے اس کے لیے قابل احتساب ہوں، ویزا قوانین سخت کرنےکا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پرویز مشرف کا نام ڈھائی سال تک ای سی ایل میں رکھا اس پر کوئی توجہ دیتا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ اگر تین سال تک کسی کے مقدمے کا فیصلہ نہ ہوتو اس کا نام ای سی ایل سے باہر ہوتا جبکہ ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ٹرائل کورٹ نے ان کا بار ہٹانے کا حکم دیا۔
حکمراں جماعت کے رہنما نے کہا کہ عام طور پر عدالتوں کے اس طرح کے فیصلے کو مان لیا جاتا لیکن ہم نے اس پر ہائی کورٹ میں اپیل کی جس کا فیصلہ ہم پر تنقید کرنے والوں کو پڑھ لینا چاہیے کیونکہ ہائی کورٹ نے حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حکومت کو کوئی حق نہیں کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں رکھے اور 15 روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل نہیں ہوئی تو انھیں باہر جانے کی اجازت ہوئی تو ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل کی لیکن سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور ہماری اپیل مسترد کردی۔
چوہدری نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک جملہ آیا کہ ٹرائل کورٹ اور حکومت پرویز مشرف کی نقل وحرکت ریگیولیٹ کر سکتی حالانکہ ٹرائل کورٹ پہلے ہی فیصلہ دی چکی ہے تو حکومت کچھ نہیں کرسکتی جب اعلیٰ عدالتیں اس کے حق میں فیصلہ دے چکی ہوں۔
انھوں نے کہا کہ اس میں حکومت کی ملی بھگت کی کوئی بات نہیں حالانکہ ان کے وکیل نے عدالت میں گارنٹی دی تھی اور اس طرح کی گارنٹی حکومت نہیں مانگتی بلکہ عدالتیں مانگتی ہیں۔