• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ایون فیلڈ ریفرنس: مریم نواز کا واجد ضیاء کے دستاویزات پر اعتراض

شائع March 16, 2018

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس میں موزیک فونسیکا کے خط سمیت اہم دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا۔

سماعت کے دوران پیش ہونے والے موزیک فونیسکا کے خط میں مریم نواز کے نیلسن اور نیسکال لیمٹڈ کی بینفیشل اونر ہونے کی تصدیق کی گئی۔

مریم نواز کے وکیل نے واجد ضیاء کی جانب سے جمع کرائی گئی تمام دستاویزات پر اپنا اعتراض ریکارڈ کرایا۔

سماعت کے دوران پاناما کیس کے حوالے سے بنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء کی جانب سے نیلسن لمیٹڈ، نیسکال لمیٹڈ، ایون فیلڈ پراپرٹی نمبر 16 اور 16 اے کے ٹائٹل رجسٹری کی آفیشل کاپیاں عدالت میں پیش کی گئیں۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب ریفرنسز کے ٹرائل میں توسیع

عدالتی کارروائی کے دوران کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ اور اس سے متعلق حسن اور حسین نواز کی جانب سے سٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے کو بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

واجد ضیاء نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے نواز شریف اور دیگر کے خلاف سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی عمران خان کی پیٹیشن کے ساتھ منسلک قانونی ماہر گیلڈ کاپر کی تجویز کی کاپی بھی پیش کی۔

پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ نے سامبا گروپ کی جانب سے منروا سروسز کو لکھے گئے خط اور فنانشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے خط کی کاپی عدالت میں پیش کی۔

مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے تمام دستاویزات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ فوٹو کاپیاں غیر مصدقہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واجد ضیاء ان میں سے کسی بھی دستاویز کے تخلیق کار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ دستاویزات ان کے سامنے تیار ہوئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانون شہادت کے تحت ایسی کسی بھی دستاویز کو عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

سماعت کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء عدالتی حکم پر قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خط کی اصل کاپی بھی لے کر آئے تاہم عدالت کے سامنے سربمہر لفافہ کھولنے کے بعد پتہ چلا کہ نہ یہ قطری شہزادے کی جانب سے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کی کاپی ہے اور نہ ہی جے آئی ٹی کو لکھے گئے خط کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ریفرنس: جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء ریکارڈ سمیت طلب

عدالت نے خط واپس واجد ضیاء کے حوالے کرتے ہوئے نیب استغاثہ کو ہدایت کی اگر اس خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانا ہے تو پہلے درخواست دیں۔

واجد ضیاء کی جانب سے حدیبیہ پیپرز ملز اور التوفیق کمپنی کے درمیان باہمی معاہدے اور کوئین بینچ کے حکم نامے کی کاپی بھی پیش کی گئی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 20 مارچ تک کےلیے ملتوی کردی۔

گزشتہ روز کی سماعت کے دوران دفاعی کونسل نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سوالات اٹھائے تھے۔

احتساب عدالت میں واجد ضیا کی گواہی سے قبل دفاعی کونسل کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیقم 1،2 اور 6 سے 9 قابل قبول نہیں کیونکہ وہ صرف جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق قومی احتساب ادارے جے آئی ٹی رپورٹ کے کچھ حصے کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے پوری رپورٹ کو شریف خاندان کے خلاف جاری تینوں ریفرنس کا جزوی حصہ بنادیا ہے۔

انہوں نے نیب کی جانب سے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو گواہ کے طور پر پیش کرنے پر بھی اعتراضات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ کو تحقیقاتی افسر کی طرح جرح کی جاسکتی ہے گواہ کی طرح نہیں۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔

8 مارچ کو احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024