نئی حلقہ بندی: ’پارلیمانی کمیٹی دخل اندازی سے باز رہے‘
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے پارلیمنٹری کمیٹی کو باقاعدہ ’مراسلے‘ کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ وہ حلقہ بندیوں کے معاملے میں مداخلت سے گریز کریں۔
واضح رہے کہ ای سی پی کی جانب سے 5 مارچ کو نئی حلقہ بندیاں متعارف کرائیں گئیں جس پر پارلیمنٹری کمیٹی نے جمعرات کو اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سفارشارت ترتیب دیں۔
یہ پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ
دوسری جانب ای سی پی نے کمیٹی کے کنوینر اور وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز کو ’مراسلہ‘ تھما دیا جس پر چاروں صوبوں کے الیکشن کمشنرز کے دستخط موجود تھے۔
کمیٹی کے ممبران نے ای سی پی کے مذکورہ عمل پر احتجاج کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ وہ ترتیب کی گئی سفارشات کو کمیشن کے حوالے ضرور کریں گے کیونکہ وہ بھی حلقہ بندیوں کے مرکزی اسٹیک ہولڈرز میں سے ہیں۔
اس حوالے سے ای سی پی حکام نے زور دیا کہ پارلیمنٹرین قانونی اور آئینی راستہ استعمال کریں اور اعتراضات پر مشتمل پٹیشن دائر کریں۔
پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کیے گئے مراسلے میں درج ہے کہ ’الیکشن رولز 2017 کے سیکشن 21 (رولز 12) میں واضح ہے کہ تحفظات کی صورت میں ای سی پی کے سامنے پٹیشن فائل کی جائے‘۔
یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور نہ ہوسکے
ڈان کو موصول ہونے والے مراسلے کی کاپی میں واضح ہے کہ ’متعلقہ حلقے سے متعدد ووٹرز کی تجاویز ہی قابل غور ہو سکتی ہیں جبکہ کسی ادارے یا گروپ کی جانب سے سفارشات غیر قانونی تصور ہوں گی جس کی ای سی پی ہرگز اجازت نہیں دے گا‘۔
کمیشن کی جانب سے مراسلے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہم ای سی پی کو صرف مشورے کے ذریعے حلقہ بندیوں کے نقائض بتانا چاہتے ہیں تاکہ ای سی پی کا کام مزید آسان ہو، ’کیا اس معاملے پر بھی سپریم کورٹ جائیں‘۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما غلام احمد بلور نے اعتراض اٹھایا کہ پشاور میں ان کے حلقے کو ای سی پی نے این اے ون سے این اے 3 میں کیوں تبدیل کیا؟
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما صاحبزادہ نذیر سلطان نے نقطہِ اعتراض پر کہا کہ ای سی پی اپنے ہی قوانین کے منافی کام کررہی ہے، جس نے جھنگ میں ان کے حلقے این اے 90 کو ‘برباد’ کردیا۔
مزید پڑھیں: 2018 انتخابات کا وقت پر انعقاد انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم سے مشروط
اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ پارلیمنٹرینز ای سی پی کو ہدایت جاری نہیں کر سکتے لیکن بطور اسٹیک ہولڈرز ہم رائے یا سفارشات تو پیش کرسکتے ہیں تاہم ای سی پی فیصلہ کرے کہ ان سفارشات کو قابل غور سمجھا جائے یا نہیں۔
جماعتِ اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے احتجاج کیا کہ ای سی پی نے لوئر دیر میں ان کے حلقے کو تبدیل کردیا۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز نے کہا تھا کہ ای سی پی اپنے آئینی حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے جس پر قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی تاکہ نئی حقلہ بندیوں کا جائزہ لے سکے اور ان پر اعتراض اٹھائے جا سکیں۔
یہ خبر 16 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی